اب آپ کو خود میٹنگ میں آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ملیے مائیکرو سافٹ کے نئے اے آئی اسسٹنٹ سے

مائیکرو سافٹ نے چیٹ جی پی ٹی کی طرز پر مصنوعی ذہانت کا نیا اے آئی اسسٹنٹ متعارف کرایا ہے جو آزمائش کے بعد یکم نومبر سے آفس ایپس کا حصہ ہوگا۔

مائیکرو سافٹ 365 ’کوپائلٹ‘ ٹیمز میں ہونے والی ہر میٹنگ کا خلاصہ بیان کر سکتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے مددگار ہوگا جو خود میٹنگ میں نہیں آنا چاہتے۔

صرف چند سیکنڈوں میں آپ اس سے ای میل لکھوا سکتے ہیں، ورڈ ڈاکومنٹ بنوا سکتے ہیں، سپریڈ شیٹ کے گراف اور اور پاور پوائنٹ کی پریزنٹیشن بھی تیار کروا سکتے ہیں۔

مائیکرو سافٹ کو امید ہے کہ کوپائلٹ کی مدد سے کام کم ہوجائے گا تاہم ٹیکنالوجی کے بعض ماہرین کو ڈر ہے کہ یہ انسانوں کا متبادل بن سکتا ہے۔

ایسے خدشات بھی ظاہر کیے گئے ہیں کہ ان ایپس کی وجہ سے مصنوعی ذہانت پر ہمارا انحصار بڑھا جائے گا۔

اے آئی پر نئے قوانین کی پاسداری اس ایپ پر بھی لازم ہوگی کیونکہ یہ فی الحال ایسا بتانے سے قاصر ہے کہ کب کوئی مواد انسانوں نے نہیں بنایا۔

یورپ اور چین میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے قانون سازی میں درج ہے کہ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کب اے آئی کے ساتھ روابط قائم کر رہے ہیں اور کب انسانوں کے ساتھ۔

مائیکرو سافٹ 365 کے سربراہ کولیٹ سٹالبومر نے کہا کہ کوپائلٹ استعمال کرنے والے فرد پر منحصر ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے۔ ’یہ ایک ٹول ہے جسے استعمال کرنے پر لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوگی۔‘

کوپائلٹ

’ممکن ہے مواد میں یہ واضح نہ ہو کہ مجھے اے آئی اسسٹنٹ کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ مگر اس دوران انسان ہمیشہ کنٹرول میں موجود ہوتے ہیں۔‘

تاہم یورپی ریاستوں نے کہا ہے کہ یہ ذمہ داری اے آئی ٹول بنانے والی کمپنیوں پر لاگو ہوگی کہ وہ ان کے ذمہ دارانہ استعمال کی یقین دہانی کرائیں۔

لانچ سے قبل مجھے کوپائلٹ آزمانے کا بھرپور موقع دیا گیا۔ اس کی بنیاد چیٹ جی پی ٹی کی ٹیکنالوجی پر ہی ہے جسے اوپن اے آئی نے بنایا۔ مائیکرو سافٹ نے اس کمپنی میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

میں نے یہ آزمائش مائیکرو سافٹ کے عملے کے رکن ڈیرک سنائیڈر کے لیپ ٹاپ پر کی۔ کوپائلٹ ایک فرد کے انفرادی اکاؤنٹ سے منسلک ہوتا ہے۔ اسے آپ کے اکاؤنٹ اور کمپنی کے ڈیٹا تک رسائی ہوتی ہے۔

مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا محفوظ انداز میں رکھا جاتا ہے اور اس کی مدد سے ٹیکنالوجی کی مزید تربیت نہیں کی جاتی۔ سٹالبومر نے کہا کہ ’آپ صرف اس ڈیٹا تک رسائی رکھتے ہیں جسے آپ کو ویسے بھی دیکھنے کی اجازت ہے۔ یہ (منصوعی ذہانت) ڈیٹا پالیسی کا احترام کرتی ہے۔‘

کوپائلٹ ابتدائی طور پر کارآمد ٹول معلوم ہوتا ہے۔ دفتری کام کرنے والوں کے لیے یہ بہتر ساتھی ثابت ہوسکتا ہے، خاص کر ان کمپنیوں میں جو بچت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔

میں نے دیکھا کہ کوپائلٹ نے بڑی آسانی سے چند لمحوں میں فرضی پراڈکٹ لانچ سے متعلق ای میلز کا خلاصہ کر دیا۔

پھر اس نے مختصر جواب کا مشورہ دیا۔ اس کی ایک آپشن کے ذریعے ہم نے اپنا جواب طویل اور لہجہ نرم کر لیا۔ چیٹ بوٹ نے مشورے میں گرم جوشی سے بھرپور جواب لکھا جس میں تمام خیالات کی تعریف کی گئی تھی جبکہ منصوبے کے حوالے سے دلچسپی عیاں تھی۔ اس سب کے دوران ہم نے اس پراجیکٹ کے بارے میں کچھ بھی نہیں پڑھا ہوا تھا۔

پھر ہمیں ای میل بھیجنے سے پہلے اس میں تصحیح کی آپشن بھی دی گئی۔ اس میل میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ تمام مواد کوپائلٹ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔

پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ کیسے اس ٹول نے صرف 43 سیکنڈوں میں پاور پوائنٹ پریزنٹیشن بنا لی۔ اسے ورڈ ڈاکومنٹ میں مواد فراہم کیا گیا تھا۔ اس نے وہی تصاویر استعمال کیں جو ڈاکومنٹ میں موجود تھیں۔ یہ خود بھی رائلٹی فری تصاویر تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یوں اس نے سادہ اور موثر انداز میں پریزنٹیشن بنائی۔ اس نے پریزنٹیشن کے ساتھ پڑھنے کے لیے مجوزہ نوٹس بھی بنا لیے تھے۔

کوپائلٹ

جب میں نے گزارش کی کہ پریزنٹیشن کو کچھ ’رنگ برنگا‘ بناؤ تو اسے میری گزارش سمجھ نہ آئی۔ اس نے مجھے خود پاور پوائنٹ کا ٹول استعمال کرنے کا کہا۔

بالآخر ہم نے ایک مائیکرو سافٹ ٹیمز میٹنگ پر نظر دوڑائی۔

کوپائلٹ میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ مختلف موضوعات کی شناخت کر سکتا ہے اور بحث کا خلاصہ کر سکتا ہے۔ یہ اتفاق اور اختلاف کرنے کرنے والے اشخاص کی نشاندہی کر سکتا ہے اور کسی چیز کے فائدے اور نقصان کی فہرست دے سکتا ہے۔ اس سب میں صرف کچھ سیکنڈز لگتے ہیں۔

اسے کچھ یوں پروگرام کیا گیا ہے کہ یہ میٹنگ کے دوران کسی شخص کی کارکردگی سے متعلق سوال پر جواب نہ دے، جیسے یہ سوال کہ بہترین (یا بدترین) سپیکر کون تھا۔

میں نے سنائیڈر سے پوچھا کہ آیا کوئی میٹنگ پر جانے کا سوچے گا بھی، جب کوپائلٹ ان کی یہ مشکل آسان کر سکتا ہے۔ وہ مذاق میں کہتے ہیں کہ ’بہت سی میٹنگز صرف ویبینار بن جائیں گی۔‘

یہ ٹیکنالوجی اس بارے میں نہیں بتا سکتی کہ ٹیمز پر کتنے لوگ ہیں اور کتنے لوگ ایک ڈیوائس پر میٹنگ میں شریک ہیں۔ اس کے لیے کسی کو زبانی ایسا بتانا ہوگا۔

کوپائلٹ کی ماہانہ قیمت 30 ڈالر ہوگی۔ اسے انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے اور یہ آف لائن کام نہیں کرتا۔

ناقدین کے مطابق اس طرح کی ٹیکنالوجی سے انتظامی امور کی نوکریوں میں کٹوتی ہوسکتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں اے آئی ماہر کریسا ویلز نے کہا کہ انھیں اس بات سے پریشانی ہے کہ ایسے ٹول پر لوگوں کا دار و مدار حد سے زیادہ بڑھ جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ٹیکنالوجی ناکام ہوتی ہے یا ہیک ہوجاتی ہے تو کیا ہوگا؟ اس میں کوتاہی بھی ہوسکتی ہے یا شاید کوئی نئی پالیسیاں بن سکتی ہیں جن سے آپ اتفاق نہ کریں۔ اگر آپ کو اس کی بہت زیادہ عادت پڑ جائے اور آپ اس کے بغیر کام کرنے کی صلاحیت کھو دیں، تب کیا ہوگا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.