پٹرولیم مصنوعات، عالمی مارکیٹ کے ساتھ حکومت قیمتیں کم نہیں کرتی، کتنے قسم کے ٹیکس ہیں،سپریم کورٹ نے جواب مانگ لیا

عدالت عظمیٰ نے پٹرولیم مصنوعات پر بے تحاشا ٹیکسوں کے اطلاق کے معاملے پر وزارت پٹرولیم و دیگر متعلقہ اداروں سے تحریری وضاحت طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتہ کیلئے ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھاکہ عالمی مارکیٹ کے ساتھ حکومت قیمتیں کم نہیں کرتی، حکومت ایک چارٹ بنا کر دے کہ پٹرولیم مصنوعات پر کتنے قسم کے ٹیکسوں کا اطلاق ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کروائینگے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مینب اخترپر مشتمل بنچ نے بدھ کے روز پٹرولیم مصنوعات پر عائد کئے جانے والے متعددٹیکسوں کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پٹرو لیم مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس لگتا ہے، جب بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، یہ قانون کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 100 ڈالر سے 50 ڈالر پر بھی آجائیں تو ہماری حکومت یہاں پر قیمتیں کم نہیں کرتی ہے۔ انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ پٹرولیم مصنوعات پرکس قسم کے ٹیکسوں کا اطلاق ہوتا ہے، عالمی مارکیٹ اور پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی کیا قیمتیں ہیں ؟ جس پر انہوں نے موقف اختیار کیاکہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت کم ہیں ،اس سلسلے میں انہوں نے بھارت کی مثال دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوں تو عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا ہے، بھارت سے قیمتوں کا موازنہ نہ کریں، ان کی آئی ٹی کی انڈسٹری کو بھی دیکھ لیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.