’علی ظفر کے سم کارڈ میں جنسی ہراسگی کا آپشن ہی نہیں‘

میشا شفیع نے الزام لگایاہے کہ انہیں علی ظفر نے ایک سے زیادہ مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیاہے۔ ہمارے حکمرانوں پر تو یہ الزام بھی لگایاجاتاہے کہ انہوں نے اس ملک کی اکانومی کو ہراساں کیاہے۔ اگرچہ لغت میں ’’جنسی ہراسگی‘‘ کوئی اصطلاح نہیں ہے لیکن اپنا مافی اضمیر بیان کرنے کیلئے اس کے استعمال پرمعذرت خواہ ہوں۔ میشا کا کہنا ہے کہ انہیں جنسی ہراسگی کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب وہ دوبچوں کی ماں تھیں اور ایک کامیاب عورت کی طرح لائم لائٹ میں اپنا مقام بناچکی تھیں ۔ میشا اور علی ظفر پاکستان کی پاپ انڈسٹری کے اہم نام ہیں ، طویل عرصہ تک ایک دوسرے کے قریب رہنے کے بعد گلوکارہ کی طرف سے ایسے الزام کا سامنے آنا کئی سوالات کو جنم دیتاہے۔میں ذاتی طور پر میشا اور علی دونوں کو جانتا ہوں ۔میشا کو لڑکپن سے جانتاہوں اس کی وجہ یہ رہی کہ اس کے نانا حمید اختر صاحب کے ساتھ ایک اخبار میں کئی سال تک کالم لکھتا رہا ہوں ، میشا کی والدہ اداکارہ صباحمید اور والد پرویز مرحوم سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ فر یق دوم اور مدعا علیہ علی ظفر سے میرے تعلقات زیادہ قریبی ہیں۔علی اوران کے والد پروفیسر ظفر دونوں میرے دوست ہیں۔ اپنے ثقافتی صحافتی تجربے اور مدعاعلیہ سے قریبی تعلقات کے باعث وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ ۔۔علی ظفر کے سم کارڈ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ علی ظفر پروفیسروں کی اولاد ہے ان کی والدہ بھی جامعہ پنجاب شعبہ لائبریری سائنس کی سربراہ ہیں۔درج بالا الزام ان کی تربیت کی نفی کرتاہے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ میشانے علی ظفر پر یہ الزام کیوں لگایا اس کی وجوہات ہوسکتی ہیں؟؟۔ جنسی طور پر ہراساں کرنے کاالزام ان ملکوں اور معاشروں کیلئے بڑا اخلاقی جرم سمجھاجاتاہے جہاں ہر قسم کی آزادی کے بعدایسے کسی عمل کی توقع کرنا ایسے ہی کہ جنگل میں ببر شیر شکار کرنے کی بجائے بار بی کیوکا عادی ہوجائے۔’’جنگلی اخلاقیات‘‘ کے مطابق یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی لگڑبگڑ اپنے سے کمزور جانور کا شکار کرنے کی بجائے اس سے فرینڈلی اپوزیشن جیسے تعلقات استوار کرے۔ فرینڈلی اپوزیشن کا نتیجہ بالآخر نون کے میاں اور پی پی کے زرداری صاحب جیسا برآمد ہوتاہے اسلئے سیاست میں بھی یہ حکمت عملی فریقین کے لئے محفوظ نہیں ہے۔میشا اور علی کے تنازع کو میڈیا نے #ME TOOسے جوڑا ہے۔’’می ٹو‘‘ عالمی سماجی رابطے پر ایک ایسی تحریک ہے جس کا آغاز ستمبر 2017میں ہوا تھا۔قصہ یہ تھاکہ امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے اکیڈمی ایوارڈز کمیٹی کے اہم رکن اور پورن فلم انڈسٹری کے معروف پروڈیوسر Harvey Weinsteinکے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیاتھا۔ ہاروی مغربی دنیا میں پورن انڈسٹری کا یش چوپڑہ سمجھاجاتاہے۔ الیسامیلانو کے بعد ہالی وڈاور انٹرنیشنل پورن انڈسٹری سے وابستہ 80ورکنگ ویمنز نے ہاروی پر الزام لگایاتھاکہ وہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتارہاہے۔ مذکورہ تمام خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا انکشاف سوشل میڈیا پر کیاتھا اسلئے یہ ایک تحریک بن گئی ۔بعدازاں پاکستان سے فریحہ الطاف ،نادیہ جمیل اورماہین خان نے بھی بیان کیاکہ بچپن میں ان کے ساتھ جنسی تشدد کارویہ اپنایاگیا۔ Sexual Harassmentکی سادہ تعریف یہ کی گئی ہے کہ انسانی جذبوں کے اظہار میں مرضی کی بجائے زور زبردستی کا عنصر اسے ناپسندیدہ بنادیتاہے۔ جس طرح مغرب کی ایٹم بم کی ایجادسے حیاتیات اورانسانی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں اسی طرح انسانی اخلاقیات کے لئے یہ ’’غیر اخلاقی ایٹمی رجحانات‘‘ بھی مغربی دنیا سے ہی امپورٹ کئے گئے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی پایاجاتاہے کہ انسانی جبلت کو مشرق کی شرم وحیا ،عزت اور غیرت جیسی رسم ورواج میں جکڑ کرہم نے اپنی زندگیوں کو بے کیف اور غیر محفوظ بنا رکھا ہے۔
جنس اوراجناس کا دائرہ وسیع کیاجائے تو ہمارے ہاں سیاست ،جمہوریت اور آمریت جیسی اجناس بھی اہم ہیں۔لیکن اصول یہ ہے کہ میڈیا کی مارکیٹ میں سیاسی اور جمہوری طور پر ہراساں کرنے کی وارداتوں کا تذکرہ کیاجاتاہے۔آمری طور پر ہراساں کرنے کی بات زمانہ بعدازوقوعہ قلم بندکرنے کی روایت جاری و ساری ہے۔ ایوب ،یحییٰ اور ضیاالحق ایک طویل عرصہ تک آئین کو ہراساں کرتے رہے۔ جنرل مشرف نے ایمرجنسی پلس کا نام دے کر 9سال تک آئین کے ساتھ یہی کھلواڑ جاری رکھا ۔نون میم راشد نے اس دور ِہرج کے لئے کہاتھاکہ ۔۔یہ نوسال کا دور،یوں مجھ پہ گزرا،کہ جیسے کسی شہر ِمدفون پر وقت گزرے۔۔چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں میاں برادران کی طرف سے سیاسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں نوازشریف کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی ، جنرل غلام جیلانی کی سفارش پر ہم نے انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنایالیکن پرویز الٰہی کی باری آئی تو شہبازشریف کو وزیر اعلیٰ منتخب کراکر وعدہ خلافی کی گئی ۔ چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ نوازشریف نے اپنے تین ادوار میں تمام ریاسی اداروں کو ہراساں کرنے کی مہمات جاری رکھیں۔ چوہدری شجاعت نے اعلان کیاتھاجوکوئی ان کی آپ بیتی کو مناسب نام دے گا وہ اسے سکہ رائج الوقت مبلغ پانچ لاکھ روپیہ انعام عطا فرمائیں گے ۔کتاب تو منظرعام پر آچکی میں نے ہرقسم کے طمع،حرص اور لالچ کے بغیر سیاست کی اس ہفت قلزم کے لئے’’چوہدر!دیکھ کر پائوں پھیلائیں‘‘ اور ’’ اک چوہدر میلی سی ‘‘ جیسے عنوانات موزوں کئے تھے جو گزشتہ کالم میں پروف ریڈنگ کی بھینٹ چڑھ گئے تھے ۔زمانہ حال پر نگاہ ڈالیںتو پی ٹی آئی کے 20ممبران نے سینیٹ کے انتخابات میں اپنے ووٹ فروخت کرکے کپتان عمران خان کو ہراساں کیا۔اس سے قبل عائشہ گلالئی نے الزام عائد کیاتھاکہ کپتان نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیاہے اور وہ عدالت میں یہ ثابت کریں گی ۔وہ عدالت گئیں اورنہ الزام ثابت ہوا۔ میشا نے بھی علی ظفر پریہ الزام عدالت میں نہیں میڈیا میں عائد کیاہے۔نام صیغہ راز میں رکھنے کے وعدے پر ایک ’’جیمز بھانڈ‘‘ کا کہناتھاکہ میشا شفیع کا گلوکاری کے شعبہ میں وہی مقام ہے جو شریف خاندان میں کیپٹن صفدر کا ہے۔ میشا کو علی ظفر سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا اتنا ہی خطرہ تھا جتنا ماروی میمن کو پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے نون لیگ سے محسوس ہوتاہوگا۔ایسا ہی خطرہ فردوس عاشق اعوان بھی قاف لیگ میں رہتے ہوئے بالترتیب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے محسوس کرتی ہوں گی۔ ندیم افضل چن نے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی سے پی ٹی آئی کے خیموں میں چھلانگ لگادی ہے تاہم انہوں نے یہ شکایت نہیں کہ انہیں نظریاتی طور پر ہراساں کیاگیا۔
بلاول نے کہاہے کہ چن نظرآتے تھے لیکن نظریاتی نہیں تھے۔ شیخ رشید تو قانون ساز اسمبلی میںبیٹھ کرآوازے کسا کرتے تھے اور ان حملوں میں انہیں میاں برادران کی پشت پناہی حاصل رہی۔شیخ رشید کی زُبان نوکدار سے تو گائے بھینسیں بھی محفوظ نہیں رہیں ۔شیخ صاحب نے اپنی شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس انداز سے بھینس کو کلے سے باندھا تھاکہ وہ بیچاری بھی ہراساں ہوگئی تھی۔خواجہ آصف نے تو ٹریکٹر ٹرالی کا طعنہ دے کر جنسی دہشت گردی کا مظاہرہ کیاتھا۔آٹھ سے گیارہ بجے کے بعض اینکروں نے الزام لگایاہے کہ ایک معروف لیڈر نے ایک غیر ملکی خاتون اینکر پرسن کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔موصوف نے اس سے دریافت کیا کہ اس کاکوئی بوائے فرینڈ ہے؟ خاتون اینکر کو مہنگا موبائل دینے کی پیشکش بھی کی گئی ۔پاکستانی معاشرے اور سیاستدانوں کے بارے میں کرسٹینا لیمب نے اپنے تجربات لکھے تھے جس میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ذکر تھا ۔تہمینہ درانی نے ’’مائی فیوڈل لارڈز‘‘ لکھی تھی اگر فیوڈل نہ لکھتی تو توہین عدالت کی مرتکب ہوتی۔میشا شفیع کوبریک تھرو جگنی سے ملاتھا ،اس سونگ میں وہ عارف لوہار کی ساتھی گلوکارہ تھیںلیکن جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام انہوں نے علی ظفر پر عائد کیاہے۔ حالانکہ عارف لوہار نہتانہیں گاتاوہ چمٹے سے مسلح ہوکر گاتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.