بازگشت!!!

نوازشریف اقتدار سے نکل گئے مگر سیاست سے نہیں، انہوں نے دنیا بھر کی سیاسی تاریخ میں دلچسپ پوزیشن اختیار کر رکھی ہے، اپنی پارٹی ملک میں حکمران ہے اور ذاتی وفادار سربراہ حکومت، آپ انہوں نےقائد حزب اختلاف کا منصب جلیلہ سنبھال رکھا ہے، مقدر کے دھنی نوازشریف حسن تدبیر سے عاری ہیں، خوش قسمتی انہیں اقتدار کی رفعتوں سے سرفراز کرتی ہے تو فوراً ہی اپنی ’’حکیمانہ تدبیروں‘‘ سے پاتال میں اتر جاتے ہیں کہ ہر چیز اپنے اصل کو لوٹتی ہے، اصل کی طرف لوٹنے میں اتنی تیز رفتاری شاید ہی کسی دوسرے نے اختیار کی ہو، عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے اقتدار کے لئے نااہل قرار پائے ہیں ان کی واپسی ناممکن ہو چکی ہے، سیاست میں ان کا کردار گزرتے دنوں میں دھیما ہوتے ہوئے معدوم ہوجائیگا۔ مسلم لیگ جو نواز کے نام پر نامور ہوئی تھی آج ڈھلان کے سفر پر روانہ ہے اس کی راہ میں اب فراز نہیں، ساری چوٹیاں، بلندیاں وہ پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ترائی کے سفر کو روکنا ناممکن، لیکن بڑی حد تک اسے آہستہ کیا جاسکتا تھا، یہ شہباز کے بس کی بات نہ تھی، وہ عوام میں جگہ کیا بناتے، ان کے اپنے وزراء اور ممبران اسمبلی نالاں ہیں، ممبران ایک مسکراہٹ کی چاہت میں نوازشریف کی طرف دیکھتے کہ قسمت یاوری کرے توان کی بارگاہ میں باریابی ہو، وہ مسکرا

کے ملتے اور خوش خلقی سے حال احوال دریافت کرتے، چھوٹے میاں صاحب جی حضوری کرنے والے بابوئوں میں خوش ہیں، ممبران اسمبلی کو دیکھتے ہی ان کے تیوری چڑھ جاتی ہے، جھاڑ نہ پلائیں تو بھی سرد مہری سے ساری کسر پوری کرنے میں طاق ہیں۔ مسلم لیگ کو ایک حد تک سنبھالنا ممکن تھا کہ شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کا قلم دان سونپا تھا تو مسلم لیگ کی صدارت بھی دے دی جاتی، بھلے قائم مقام صدر ہی بنا دیا جاتا، دکھاوے کی حد تک بھی انہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی جاتی، وہ دور اقتدار کو پورا کرنے کے ساتھ، میاں صاحب کی گلو خلاصی تک پارٹی کے کرتا دھرتا بنا دیئے جاتے، تو انہیں اس سطح تک نہ جانا پڑتا، جہاں وہ اب نئے دور حکومت کی آرزو میں چلے گئے اور اپنا تاثر خراب کر بیٹھے، انہیں پورا موقع دیا جاتا تو نہ صرف مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ سے بچ سکتی تھی بلکہ وہ زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ عمران خان کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتی۔ نوازشریف اپنی زبان ان کے منہ میں نہ ڈالتے وہ آئینی ا داروں کے لئے مسلم لیگ کو قابل قبول بنائے رکھنے میں یقیناً کامیاب رہتے، جلد بازی اور بدتدبیری نے بازی پلٹ دی ہے، ڈھلان میں لڑھکتا گول پتھر ہر لمحے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پاتال کی منزل کو روانہ ہے۔ اپنے بل بوتے پر منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے والوں میں مسلم لیگ کیلئے صرف وہی بچ رہیں گے جن کے لئے متبادل سیاسی جماعت میں جگہ باقی نہ رہی۔ جھنگ اور دریائوں کے کنارے آباد قبائل اور برادریوں والے پنجابی متبادل جماعت میںجگہ نہ پا کر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترنا پسند کریں گے۔ مسلم لیگ نواز کی قسمت پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر تشکیل پائی تھی، علت اولیٰ کے معدوم ہونے سے معلق خودبخود معدوم ہو جاتی ہے۔ جو رہ گئی یا نظر آتی ہے وہ دراصل نہیں ہے۔ ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر بجھ جانے والے ستارے کی طرح، جس کی روشنی ابھی تک زمین سے دکھائی دیتی مگر آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں نہ اس کا مرکز اور منبع مر چکا ہے اور نظر آنے والی روشنی فاصلے کا دھوکہ ہے۔ پیپلز پارٹی کو لوٹ کر نہیں آنا، اس کی بازگشت باقی ہے پہاڑوں سے ٹکرا کر لوٹ آنے والی صدائوں کی طرح سندھ کے چند گنے چنے حلقوں میں ولی خان کے پسماند گان کی طرح کبھی کبھی اپنی موجودگی کا دھوکہ دیتے ہوئے، بس ایسی ہی موجودگی نون کی باقی رہے گی، 2018ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے 2013ء کے الیکشن کی مانند ’’ایکشن ری پلے‘‘ نظر آئے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کے اندازوں اور عشروں سے معلق (HUNG)پارلیمنٹ کے آرزو مندوں کو ایک مرتبہ پھر مایوس ہونا ہے۔ جورفتار اور انتخابات کی اٹھان نظر آتی ہے اس کے مطابق عمران خان کی تحریک انصاف واحد اکثریتی پارٹی بنتی معلوم ہوتی ہے، اس میں پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ طویل عرصے کے بعد انہیں ایک ایسی سیاسی جماعت مل رہی ہے جو ملک کے چاروں صوبوں میں عوامی سطح پر قابل ذکر حد تک موجود ہے، ہماری فیڈریشن کے لئے یقیناً یہ نیک فال ثابت ہوگی۔ پیپلز پارٹی کا کردار محدود ہو جانے کے بعد مسلم لیگ نواز بھی پنجاب کے مخصوص حلقوں میں نظر آئے گی۔
یوں لگتا ہے کہ 2023ء کے انتخاب آنے تک ایک نئی متحدہ مسلم لیگ ، تحریک انصاف کے مقابل ہوگی، شاید اس کی قیادت بھی نئے ہاتھوں میں ہو اور اس کا انداز بھی جدا، مسلم لیگ نواز پچھلے تین عشروں سے مذہبی اور کاروباری طبقے کو پیپلز پارٹی کا ہوا دکھا کر، ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی بیساکھی دیمک زدہ ہو کر بیکار ہوئی۔ اب کمزور نظر کا لنگڑا منزل پائے تو کیونکر۔ مسلم لیگ اور عباسی دونوں کے ہاتھ ایک موقع آیا مگر گنوا دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز بھی شریف خاندان کے فرزند ہیں کہ ؎
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو مرغزار کا
پالا ہوا ہے وہ بھی نسیم بہار کا
ٹہنی بھی ایک پالا ہوا بھی نسیم بہار کا مگر ایک پھول اور دوسرا کانٹا۔ خوب کہا؎
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری
کانٹاتو ہے مگر اس کانٹے میں خوئے حریری نہیں ہے۔ اس کے بغیر کانٹا نرا خار ہے اور کانٹے کو کانٹے سے نکالا جاتا تھا بعد میں ’’سوئی‘‘ ایجاد ہوگئی تو پائوں میں چبھے کانٹے سوئی سے نکالے جانے لگے۔ چنانچہ یہ کانٹا بھی اپنی کرنی سے نہ نکل سکا تو سوئی کی نوک سے نکال باہر کیا جائیگا۔ انتخاب کا بگل بچ چکا ہے، کتنے ہاتھ نوکدار ’’سویاں‘‘ لئے خار مغیلاں کو چھلنی پائوں سے چننے کو لپکیں گے۔
دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
پروفیسر غنی جاوید کے ’’ستارے‘‘ دبی دبی ہنسی والوں کے اشارے اور ہمارے مقبول تجزیہ کاروں کے طرارے۔ کئی دنوں سے دیکھنے اور سننے کو ملے۔ سب ایک ہی خبر دیتے ہیں کہ تحریک انصاف انتخاب جیت جائے گی…. پھر لیکن کا سہارا لیکر ایک ہی سانس میں عمران خان کے ذاتی اقتدار کی نفی کرتے ہیں لیکن یہ بات ہضم کرنا ذرا مشکل ہے۔ اگرچہ عمران خان پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں متعدد دفعہ کہہ چکے کہ ایک دن آئیگا جب وہ ذاتی طور پر پارٹی کے صدر ہونگے نہ حکومت کے سربراہ اور تحریک انصاف ایک مستعد اور موثر ادارے کے طور پر کام کرتی نظر آئے گی لیکن وہ منزل ابھی دور ہے، جب یہ تحریک عمران خان کے بغیر چلنے کے قابل ہوگی۔ تحریک انصاف انتخاب جیت گئی تو یقیناً عمران خان ہی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ ہونگے۔ جن اصلاحات کا وہ دعوی یا وعدہ کرتے ہیں اس کی تکمیل فی الحال ان کے بغیر ہوتی نظر نہیں آتی۔
جمعۃ المبارک کے دن، نااہلی کے فیصلے پر فیصلہ آنے کے بعد، سیاسی موقع پرستوں، ذرائع ابلاغ کے ندیدوں، ریاست کا خون چوسنے والے سرکاری چیچڑوں میں کوئی نہیں جس پر میاں نوازشریف کا ذاتی احسان ہو، حکمران نوازشریف کا معاملہ جدا ہے، وہ انہیں خوب ’’نوازتے‘‘ رہے۔ نااہلی اور اقتدار سے رخصتی کے بعد چوری کھانے والے ’’رانجھنوں‘‘ کو نئی چراگاہوں کو کھوجنا ہے، وہ کھوج شروع ہو چکی ؎
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئیگا
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
سیاست کی دنیائوں اور حکومت کی راہداریوں میں ذاتی وفاداری کوئی چیز نہیں۔ ذاتی وفاداری وہ ’’ہما‘‘ ہے۔ جسے عنقا‘‘ کہا جاتا ہے۔
بسیار خوروں کا جلسہ وہیں جمتا ہے، جہاں خوش خوراکی میسر ہو۔ بجھے چولہے اور خالی برتنوں پر، منڈیر پر بیٹھے پرندے بھی نظر نہیں کرتے۔ بادشاہ مر گیا، بادشاہ زندہ باد؎
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
ہمارا پیمان وفا سے نہیں حسن سے ہے کہ؎
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.