چوہدری شجاعت کی ’گجراتی لسی‘

یہ کتاب نہ تو خودنوشت ہےنہ کوئی سرگزشت بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کےکچھ چنیدہ واقعات کا اجمالی تذکرہ ہے جسے چوہدری شجاعت حسین کی سوانح عمری کا نام دیا گیا ہے۔کتاب کا عنوان اگرچہ ’سچ تو یہ ہے!‘رکھا گیا ہے لیکن سچ یہی ہےکہ ان تذکروں میں بھی پورا سچ نہیں لکھا گیا۔ چوہدری صاحب کے آبائی گائوں ’نت وڑائچ‘ میں بھینسوں کاکوئی باڑہ ضرور ہوگا جہاں سے لائے گئے تازہ دودھ سے جمائے جانے والے’خالص دہی‘ سے جولسی بلوئی گئی ہے ،گجراتی لسی کی اس دُکان پر ٹھنڈے،میٹھے ، کھارےاور پھیکے۔ہرطرح کے ذائقے دستیاب ہیں۔
جس طرح چوہدری صاحب کی باتیں بہت پرلطف ہوتی ہیں اسی طرح ان کی مدھانی کا’ ادھ رڑکا‘بھی لاجواب ہے۔انہوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ بالائی اور مکھن نکال کر الگ رکھ لیے ہیں اورلسی میں کہیں عرقِ گلاب، کہیں لیموں کا رَس اور کہیں زعفران ملادیا ہے۔اگر اس کے باوجود ٹھنڈک ، تسکین اور نیند کاہلکا سا خمار طاری نہ ہوتو بھنگ کے پودے سے کشید کیا گیا محلول حسبِ فرمائش ملایاجاسکتا ہے۔پینے کے بعد آپ تمام تاریخی واقعات پر ’مٹی شٹی پاکر‘اونگھنے لگ جائیں گے۔
کچی پکی لسی کی اس دُکان کےقصہ گو نے ہمیں جو واقعات سنائے ہیں ان میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔مثال کے طورپر غوث بخش بزنجو کو لسی نہیں بلکہ مکس چائے پسند تھی۔ وہ جب بھی چوہدری صاحب کے گھر آتے، گڑوالی چائے کی فرمائش ضرور کرتے۔ وہ لال مرچوں کے بھی شوقین تھے۔لال مرچوں کے دوبڑے چمچے دیکھتے ہی دیکھتے نگل جاتے۔اکبربگٹی کو ان کے برعکس سبز مرچیں پسند تھی۔وہ دوپہر کے کھانے میں بڑے سائز کی دس بارہ کڑوی ہری مرچیں کچی چبا جایا کرتے تھے۔
اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن کے والدبزگوار مولانا مفتی محمود شوگر کے مریض تھے لیکن چوہدری صاحب نے بارہا دیکھا کہ وہ ایک بڑی پلیٹ میں آم بھر کے ان پر آئس کریم ڈال کر دیوار کی طرف منہ کر کے کھارہے ہیں۔مبادا کہ کوئی ٹوک نہ دے کہ شوگر کے باوجود اتنا میٹھا کیوں کھاتے ہیں۔کتاب میں شامل ایک تصویر بھی کتنی سچی ہے جس میں ملکۂ ترنم نورجہاں ایک تقریب میں نغمہ سرا ہیں اور ان کے سر پر سونے کا تاج ہے۔یہ تاج انہیں 1965ء کی جنگ میں لازوال ملی نغمے گانے پر چودھری ظہور الہیٰ نے پہنایا تھا۔چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب میں ایک مصری رقاصہ کو بھی یاد کیا ہے۔
بہت سوں کو شاید یقین نہ آئے لیکن چوہدری شجاعت لکھتے ہیں کہ شیخ رشید، جنرل ضیاء کے ابتدائی زمانے میں مارشل لاء کے خلاف بڑی باغیانہ تقریریں کرتے تھے۔ان کی گرفتاری کے بعد ایک کرنل نے انہیں کوڑوں کی سزاسنادی تھی لیکن چوہدری ظہور الہیٰ کے جنرل ضیاء کے ساتھ تعلقات کام آگئے اور شیخ رشید کوڑے لگنے سے بال بال بچ گئے۔جس طرح چوہدری ظہورالہیٰ کی سفارش شیخ رشید کے کام آگئی اسی طرح چوہدری شجاعت نے کئی بار شراب پینے کے الزام میں گرفتار صحافیوں کو رہا کروایا۔
ایک اور صحافی کا قصہ بھی انہوں نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔لکھتے ہیں متحدہ جمہوری محاذ کے اجلاس راولپنڈی میں ان کے گھرکے ڈرائنگ روم میں ہوا کرتے تھے۔رازداری کے پیشِ نظر اخباری رپورٹروں کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا۔لیکن حیرت کی بات یہ تھی جب بھی ان کے گھر اپوزیشن کا اجلاس ہوتا اگلے روز اس کی تمام رُوداد من و عن اخبار میں چھپ جاتی۔یہ معمہ ایک روز اس طرح حل ہواکہ اجلاس کے دوران کسی رہنما کا پائوں ڈائننگ ٹیبل کے نیچے کسی چیز سے ٹکرایا۔انہوں نے جھک کر نیچے دیکھا تو میز کے نیچے راولپنڈی کے دُبلے پتلے صحافی سعودساحر ٹیپ ریکارڈرلیے بیٹھے تھے۔معلوم ہوا کہ وہ روزانہ اجلاس سے پہلے میز کے نیچے چھپ کر بیٹھ جاتے تھے اور کارروائی ریکارڈ کر کے لے جاتے تھے۔
عوامی شاعروں اُستاد دامن اور حبیب جالب کے ساتھ بھی چوہدری ظہور الہیٰ کےانتہائی قریبی تعلقات تھے۔چوہدری ظہور الہیٰ نے انہیں اُستاد دامن کو دوکمروں کا گھر تعمیر کرکے دیا توانہوں نے لینے سے انکار کردیا کہ مجھے تو نہرونے عیش کی زندگی گزارنے کی پیش کش کی تھی لیکن میرا فیصلہ اب بھی یہی ہے کہ میں اسی کٹیا میں مروں گا جس میں،میں نے زندگی گزاری ہے۔اسی طرح جونیجو نے جب حبیب جالب کے لیے چوہدری شجاعت کے ہاتھ پانچ لاکھ کا امدادی چیک بھیجوایا تو اس شاعرِ خوددار نے یہ کہہ کر چیک واپس کردیاکہ ’’چوہدری صاحب! آٹا آپ کی مل سے آجاتا ہے۔رکشہ ٹیکسی کا کرایہ آپ کے ملازم حاجی زمان سے لے لیتا ہوں۔سگریٹ پانی کا خرچہ آپ کے سیکریٹری سیٹھ اشرف دے دیتے ہیں۔میراگزارا ٹھیک چل رہا ہے۔میں یہ چیک نہیں لوں گا‘‘۔
چوہدری شجاعت لکھتے ہیں کہ حبیب جالب نے سیاستدانوں میں اگرکسی کی تعریف میں نظم لکھی تو وہ فاطمہ جناح کے بعد چوہدری ظہور الہیٰ تھے۔ایک بار حبیب جالب کو شراب نوشی کے الزام میں بند کر دیا گیا تو چوہدری ظہور الہیٰ نے جنرل ضیاء سے کہا کہ نہ آپ پیتے ہیں نہ میں پیتا ہوں، آپ اس طرح کریں کہ ایک آرڈیننس جاری کردیں کہ حبیب جالب اور اُستاد دامن کے سوا کوئی شراب نہیں پی سکتا۔جب جونیجو جنیوا سمجھوتے پر دستخط کرنا چاہتے تھے تو ضیاءالحق اس پیش رفت پر غصے سے کھول رہے تھے۔چوہدری شجاعت کے مطابق وہ اتنے غصے میں تھے کہ صوفے پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور نیچے گر گئےتھے۔ماحول اتنا گھمبیر تھا کہ ان کے اس طرح مضحکہ خیز انداز میں گرنے کے باوجود سب کے چہروں پر تنائو برقرار رہا۔
چوہدری شجاعت کے مطابق پرویزمشرف ،ظفراللہ جمالی کو انتہائی کاہل سمجھتے تھےجبکہ اکبربگٹی انہیں اپنے بیٹے کے قاتلوں میں گردانتے تھے۔چوہدری صاحب نے صلح صفائی کروانے کی کوشش کی تو بگٹی نے کہا ، ایک شرط پر معافی مل سکتی ہے۔جمالی سچے ہیں تو انگاروں پر ننگے پائوں چل کر دکھائیں۔جمالی نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
چوہدری شجاعت نے بعض سیاستدانوں کے جیل کے معمولات بھی لکھے ہیں جن میں خان عبدالولی خان کو سب سے اچھا قیدی قرار دیا ہے۔اعجازالحق کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ہر وقت اپنی پیشی کاپوچھتے رہتے تھے۔حمزہ شہباز کی من پسند ڈش چوہدری برادران کے گھر سے آتی تھی۔شیخ رشید جیل اہلکاروں کو دھمکاتے تھے جبکہ میاں عباس شریف گھنٹوں بلیوں سے باتیں کرتے رہتے تھے۔چوہدری شجاعت حسین نے لکھا ہے کہ سندھ میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو کچے کے علاقے میں ایک بریفنگ رکھی گئی۔فوجی افسرنے جب سندھ کے پتھاریداروں کی سلائیڈ چلائی تو سیدغوث علی شاہ کانام سب سے پہلے تھا۔اس پر نہ صرف غوث علی شاہ کو سخت شرمندگی ہوئی بلکہ نوازشریف کو بھی خفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح ایک اور بریفنگ کراچی میں ہوئی جس میں ایم کیوایم کے عہدیدار بھی شریک تھے۔فوجی افسر نے جب تخریب کاری میں ملوث کچھ ایم کیوایم کے عہداروں کے نام لیے تو ان میں ایک نام اس عہدیدار کا بھی تھا جو اس وقت بریفنگ میں موجود تھا۔چوہدری شجاعت کے مطابق غلام اسحاق خان پیپلزپارٹی سے سخت نفرت کرتے تھے۔بطوروزیرداخلہ انہوں نے بے نظیر اور آصف زرداری کو ایک ہی ریسٹ ہائوس میں نظر بندکروایا تو غلام اسحاق خان نے انہیں اپنے دفتر بلا کر کہا۔’’چوہدری صاحب! یہ آپ نے ان دونوں کا ’ہنی مون پروگرام‘ کب سے شروع کروا رکھا ہے۔محترمہ کو ریسٹ ہائوس میں رہنے دیں۔زرداری کو اڈیالہ جیل منتقل کردیں‘‘۔
جب غلام اسحاق خان نے محترمہ کی حکومت برطرف کی تو دونوں میں دلچسپ مکالمہ ہوا۔بے نظیر نے حکومت برطرفی کی اطلاعات کی تصدیق کے لیے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو ایوانِ صدر بھیجا۔صدر اسحاق نے ایسی خبروں کی تردید کی جس سے محترمہ کی تشفی ہو گئی۔لیکن جب شام پونے پانچ بجے صدر نے بے نظیرکو فون کرکے حکومت برطرفی کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو محترمہ نے پوچھا آپ نے فیصلہ کر رکھاتھا تو صبح تردید کیوں کی تھی۔اس پر صدر اسحاق نے مختصر سا جواب دیا کہ یہ فیصلہ میں نے آج دوپہر کے بعد کیا ہے۔

چوہدری شجاعت نے نوازشریف کو وزیراعظم بننے سے پہلے تین نصیحتیں کی تھیں لیکن بقول ان کے نوازشریف نے کبھی ان پر عمل نہیں کیا اور ہمیشہ نقصان اُٹھایا۔وہ چوہدری برادران کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے بھی پھر گئے۔انہوں نےنہ صرفچیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ٹیلی فون ٹیپ کیےبلکہ اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ چاہے ایک رات کے لیے ہی سہی چیف جسٹس کو جیل بھیج دیا جائے۔اس قصے کی تفصیلات گوہرایوب نےاپنی خودنوشت میں بھی بیان کی ہیں۔

چوہدری شجاعت نے جنرل ضیاء سے جنرل پرویزمشرف تک اپنی سیاسی وفاداریوں کا کھل کر اظہار کیا ہے۔اگران کی یہ وابستگیاں نہ ہوتیں تو نوابزادہ نصراللہ کے بعد بلاشبہ چوہدری شجاعت ہی ایک ایسے سیاستدان ہیں جنہیں بابائے مذاکرات کا لقب مل سکتا تھا۔انہوں نےلال مسجد کے ڈنڈابرداروں سے چینی باشندوں کو چھڑوایا۔بگٹی کو بچانے کی کوشش کی۔چوہدری افتخار اور مشرف میںصلح صفائی کروانے کی کوشش کی اور اب نوازشریف اور پرویزمشرف کے ناموں پر کراس لگانے کے بعد آگے کی سیاسی صف بندیوں کے امکانات بھی کھلے رکھے ہیں۔کتاب میں مزید کتنا سچ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں اُس پین کا کہیں ذکر نہیں،جس سے جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کیے تھے اور چوہدری ظہورالہیٰ نےاسے نشانی کے طور پر اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.