جمہوری روایات و اخلاقیات

انتقال اقتدار کا وقت قریب آرہا ہے، انتخابات میں دوماہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے، آخری آخری، حتمی حتمی خبریں گشت کرنے لگی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حکومت کو، سیاست کو’’مایوں‘‘ بٹھانے کی شروعات کردی ہیں۔ دھڑکنیں ہیں کہ کہیں تیز کہیں سست پڑرہی ہیں۔ یہی جمہوریت کی بہار ہے، اسی میں نئے پھول کھلیں گے، ایسا ہی ہر جمہوری معاشرے میں ہوتا ہے، ایک طرف یہ خوشیوں ا ور جشن منانے کی رت ہے تو ساتھ ہی اس انتخابی عمل کو پوری دیانتدارانہ سنجیدگی سے نبھانے کا وقت آرہا ہے، اگر کسی کو اپنے موجودہ سیاسی نام سے فائدہ ہونے کی امید نہیں تو وہ نام بدل رہا ہے۔ الغرض ایک گہما گہمی ہے، بالکل کالے سیاہ بادلوں جیسی جس کے بارے کسی کو خبر نہیں کہ اس میں طوفان چھپے ہیں یا رحمت، بہرحال سارے اہل وطن مل کر باران رحمت کی دعا کریں اور اپنی مرضی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ اچھی طرح سوچ لیں کہ’’نیوندرا‘‘ کس کو ڈالنا ہے اور ولیمہ کس کا کھانا ہے۔ انتخابی موسم میں مہذب قومیں صبر و تحمل اور سوچ بچار سے کام لیتی ہیں، اس لئے ہمیں بہت محتاط رہنا ہوگا اور ذات، برادری، ضد، دشمنی سے ہٹ کر آئندہ پانچ برسوں کے لئے ایسے افراد کو منتخب کرنا ہوگا کہ کوئی پچھتاوا نہ ہو، اپنی مشکلات کے حل کے امکانات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور یہ سارا کام

امن و امان اور جشن بہاراں جیسے ماحول میں خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچانا ہوگا۔ جن کو ٹکٹ مل گئے وہ یہ بات پلے باندھ لیں کہ سیاست خدمت ہے اور بڑی بھاری ذمہ داری، یہ تعیش اور دولت اندوزی نہیں کوئی کاروبار نہیں، انا کی جنگ نہیں، اس پیارے وطن کو آگے لے جانے کا مشن ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
ایک خوش کن امید
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے، ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا۔ انصاف میں تاخیر کے ذمہ دار جج ہیں، کہاں گئے وہ جج جن کے فیصلے موتیوں سے لکھے جاتے تھے۔ انہوں نے توعدلیہ کو پیش نظر رکھ کر کہا ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا، ہم ان کی آواز میں آواز ملا کر قدرے اضافے کے ساتھ یہ کہیں گے کہ ہمیں اپنا اپنا گھر درست کرنا ہوگا، کیونکہ ہم پر جو بھی بپتا پڑی اس میں صرف عدلیہ کے ناقص فیصلے یا انصاف میں تاخیر کا ہاتھ نہ تھا، 22کروڑ اہل چمن کے ہاتھ بھی تھے۔ ہمیں پرامید ہونا چاہئے کہ اچھی مثالیں قائم ہورہی ہیں، بہت زیادہ بگڑ کر دیکھ لیا اب تھوڑا سا سنور کر بھی دیکھ لیں کہ ہم اپنی جنت کو پھر سے جنت کیسے بناسکتے ہیں۔ ہمیں خلفاءراشدین ؓ اور قاضی شریح کی تاریخ دہرانا چاہئے ہمیں یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ امام ابوحنیفہ نے کیوں چیف جسٹس بننے سے انکار کردیا اور جیل چلے گئے، جہاں انہوں نے زندگی کے آخری ایام گزاردئیے۔ کسی کو سانپ، کتا، گدھا کہنے سے پہلے اپنے اندر کے درندے کو مارنا ہوگا۔ اس سے بڑھ کر کوئی معاشرہ کیا بگڑے گا کہ گناہ بھی جبر کے نتیجے میں کیا جائے اور اپنی مرضی سے کوئی نیکی نہ کرسکے، جب سارے وطن کو صنم کدہ بنادیں گے تو نماز کہاں ادا کریں گے، اچھائی سے ریاکاری کو کب جدا کریں گے ، اپنا گھر درست کرنے کی بات پہلے خواجہ آصف نے بھی کی تھی مگر کیا گھر درست ہوا۔ اب چیف جسٹس عدل کے گھر کو درست کرنے کا فرمارہے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ زیر یں عدلیہ میں سب اچھا نہیں، ہمارے ہاں قانون اس قدر پیچیدہ اور فرسودہ کے زمانے کا ہے کہ جس میں عدل کو مظلوم تک پہنچنے سے پہلے مظلوم دنیا سے چل بسا ہوتا ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
سنبھل کے چل!
بھارت کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزیوں سے باز نہیں آرہا، مقبوضہ کشمیر میں حالت جنگ برپا کر رکھی ہے، بےگناہ نہتے کشمیریوں کی شہادتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پوری دنیا خاموش ہے، کشمیریوں کے حق میں پرایوں کی جانب سے کیا ،اپنوں کی طرف سے بھی کوئی بھاری تائید نہیں ہورہی۔ کشمیر کے مسئلے کا حل صرف کشمیریوں کا نہیں پاکستان کی بقا کا مسئلہ بھی ہے ،اس لئے اس سلسلے میں ضرورت ہے کہ مذاکرات کا عمل شروع ہو، عالمی سطح پر کوئی مہم چلائی جائے، مگر دوسری جانب خود پاکستان کے اندر سیاسی خلفشار کچھ اچھے اشارے نہیں دے رہا۔ آج بڑی قوتوں میں سے بھی کوئی ہمارے ساتھ نہیں، چین کو بھی ہم کسی حد تک بدظن کرچکے ہیں، اب ساری نظریں ہما ری ہوں یا اغیار کی آئندہ انتخابات کے بعد کی حکومت پر لگی ہوئی ہیں ۔ ادارے اپنا کام کررہے ہیں یہی ایک اچھی بات ہے اور اسی سے امید کی کرن پھوٹتی ہے کہ انشاء اللہ آنے والا وقت بہتری لائے گا،بشرطیکہ قوم انتخابات کو شفاف بنانے میں پورا تعاون کرے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ذمہ داران نہایت محتاط زبان استعمال کریں، سیاسی مہم جوئی کو جنگ و جدل اور دشنام نہ بنائیں، وقت معاف نہیں کرتا، قومیں جب غلطی کرتی ہیں تو نسلیں بھگتی ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کوششیں کرنا ہوںگی، لیکن سب سے پہلے ایک ایسی حکومت کا ہونا ضروری ہے جو اپنی عارضی مدت میں صاف ستھرے انتخابات کرادےاوراقتدار اہل افراد کے حوالے کردے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
ٹگ آف وار
٭…اپوزیشن لیڈر، حکومت ایک دن پہلے تحلیل کردیں۔
وزیر اعظم جواب دیتے ہیں نہیں، ہم پوچھتے ہیں مگر ایک دن پہلے کیوں؟
٭…چیئرمین نیب، کرپشن کا خاتمہ ترجیح۔
کرپشن جب خون بن کر رگوں میں دوڑنے لگے، تو خاتمہ کہاں سے جنم لے گا بہرحال دعا کرسکتے ہیں کہ چیئرمین نیب کی خواہش پوری ہو۔
٭…چودھری نثار ، ن اور ش لیگ منظور، اچکزئی لیگ منظور نہیں۔
مرد سیاست کی ایک پارٹی ہوتی ہے آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.