کائنات کا خاتمہ اچانک دھماکےسے ہوگا، سائنسدان

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کائنات میں مادے کی مقدار و ہیت کا بنیادی زرہ ہی اسکی تباہی کا سبب سکتا ہے، سائنس دانوں نے یہ انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری کائنات جس طرح سے اچانک ہگس بوسن (ہگس بوسن اس بنیادی ذرے کو کہتے ہیں جو کہ ذراتی طبعیات کا اسٹینڈرڈ ماڈل ہوتا ہے)سے تخلیق شدہ منفی توانائی پر مبنی بلبلوں کے ٹکرانے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اسی طرح یہ تباہی کا شکار ہوسکتی ہے۔
ہماری ہر دم توسیع پذیر کائنات کے آہستہ آہستہ ختم ہونے کی پیشگوئی ذراتی طبعیات کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں کی گئی ہے۔ سائنس دان اس ذراتی طبعیات کو مادے کی بنیادی طور پر تشکیل پانے والے بلاک کی وضاحت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اسکے تحت ڈارک انرجی کہلائی جانے والی ایک قوت کائنات کی توسیع کے عمل کو تیز کررہی ہےاور یہ اسوقت تک جاری رہے گی جب تک ہر چیز اختتام پذیر نہ ہوجائے۔یا پھر ایک غیر متشکل اور ایک ناقابل پیمائش غار یا گڑھے (بلیک ہول) میں چلی نہ جائے۔

لیکن ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کائنات کا خاتمہ آہستگی سے نہیں بلکہ ایک دھماکے کے نتیجے میں ہوگا اور ایسا لگ بھگ 10×139سال میں ہوگا۔اس حوالے سے اب تک جو بدترین صورتحال سامنے آئی ہے وہ اس خاتمے کے ڈرامائی معاملے کے پیچھے عمل پیرا ہے، جس میں کائنات پر موجود زندگی کے تمام آثار مٹ جائیں گے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ پہلے ہی شروع ہوچکا ہے البتہ اسکا اصل آغاز ایک بلیک ہول سے تامل سے ہوگا۔ہاورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے یہ چونکا دینے والی دریافت اس تحقیق کے دوران کیاجس کے بارے میں ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ذرات کا ڈھیر ہے اور ان میں تامل کیسے ہوگا۔
ہگس بوسن کے ڈھیر کے حوالےسے تھیوری پر سن 1970کے عشرے سے کام جاری تھا مگر اسکی دریافت یورپ کیذراتی طبعیات کی جنیوا میں موجود لیبارٹری میں2012میں ہوئی اور اسکے بارے میں گمان ہے کہ اس میں 125گیگا الیکٹرون والٹس (یہ ذراتی طبعیات میں تیزی لانے کے حوالے سے استعمال ہونے والی توانائی کو ناپنے کا پیمانہ ہے)ہوتا ہے۔
تاہم کوانٹم فزکس میں ایک اچھی چیز یہ ہے کہ کائنات کے نیم نیوکلیائی ذرات کے تامل کا یہ اصول ہمیشہ عمل پیرا نہیں ہوا۔اس سلسلے میں ماہرین طبعیات نے اپنی جو تھیوری پیش کی ہے اسکے مطابق ہگس بوسن کا موجودہ ماس ایک دن تبدیل ہوسکتا ہے۔
اگر ایسا کوانٹم پارٹیکل کے ساتھ ہوا جو کہ دیگر تمام مادے کو اسکا ماس فراہم کرتا ہے اور اس عمل کے دوران یہ ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور یہی چیز ہماری کائنات پر زندگی کو ممکن بناتی ہے۔

اس حوالے سے ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان آندریز اینڈریسن کا کہنا ہے کہ ہم ماضی کے تمام اندازوں پر کام کرکے کائنات کے خاتمے کے بالکل درست وقت اور تاریخ کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.