“میرا جسم میری مرضی”

سوشل سائنسز میں کوئی بھی فارمولہ علم ریاضی کی طرح حتمی نتائج کا حامل نہیں ہوتا ، جیسے ریاضی میں دو اور دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں ایسے سماجی علوم میں دو اور دو ملاکر بائیس بھی دکھائے جا سکتے ہیں۔ ہم جب فزکس اور کیمسٹری جیسی ’پیور سائنسز‘کے بہت سارے مظاہر کوبھی دیکھتے اور پڑھتے ہیں تو وہاں لکھا ہوتا ہے بشرطیکہ باقی حالات جوں کے توں رہیں ۔

جب ہم کسی انسان کے بارے میں بات کرتے ہیں توہرکسی کی تعلیم اور تربیت مختلف ہوتی ہے، معاشی اور معاشرتی حالات مختلف ہوتے ہیں، نفسیات اورآئی کیو لیول مختلف ہوتے ہیں اور یہ سب عوا مل بلکہ ردعمل کو بھی مختلف بنادیتے ہیں۔

ایک این جی او نے مظاہرہ کیا اورایک لڑکی نے پلے کارڈ اٹھا لیا، اس پر لکھا تھا،’ میرا جسم میری مرضی‘۔ اس تصویر پر ایک خاتون صحافی نے تبصرہ کیا اوربہت ہی سخت الفاظ میں کیا کہ اسی مظاہرے میں ایک اور پلے کارڈ پرلکھا تھا ’ یہ چار دیواری یہ چادرگلی سڑی لاش کو مبارک‘۔

انہوں نے درست نشاندہی کی کہ ایک طرف اپنے جسم پر اپنی مرضی جتائی جا رہی ہے اور دوسری طرف چادر اور چاردیواری کا انتخاب کرنے والی خواتین کو گلی سڑی لاشیں قرار دیا جا رہا ہے، یعنی جو اختیار آپ اپنے لئے چاہتی ہیں، اسے دوسروں کو دینے سے انکار کرتی ہیں، کیونکہ وہ آپ کے مادر پدر آزادد نظرئیے کے منافی ہے۔

ان کے الفاظ اتنے سخت تھے کہ مَیں یہاں نقل نہیں کر سکتا اور شائد ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پوسٹ بہت مقبول ہوئی،جو الفاظ نقل ہوسکتے ہیں۔انہوں نے لکھا، ’ہم جانتے ہیں تھرڈ ڈویژن میں ایف اے ، بی اے کر کے چالیس ، چالیس ہزار کا موبائل اور ہزاروں روپے کے ملبوسات تم کیسے حاصل کرتی ہو‘۔

مجھے تو اتنا کہنا ہے کہ ان کا مشاہدہ درست ہے، مگر سب کے لئے نہیں۔ مرد ہوں یاعورتیں سب بہک سکتے ہیں، لالچ کا شکار ہوسکتے ہیں مگر اس کے باوجود یہاں بہت بڑی تعدادمیں ایسے مرد موجود ہیں جو دوسروں کی مجبوریوں کا فائدہ نہیں اٹھاتے، یہاں بڑی تعداد ایسی خواتین ہیں، جن کو خریدا نہیں جا سکتا۔

میں اپنے مذہب کی بات کروں تو میرا جسم تو کیا میری زندگی بھی میری ملکیت نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے خود کشی کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے کہ ہمارے بعض علمائے کرام ایک بہت ہی مقدس اور اہم کام یعنی اعضا کو عطیہ تک کی ممانعت کرتے ہیں اور اس کے پیچھے اصول یہی ہے کہ جب آ پ کے اعضا آپ کی ملکیت ہی نہیں توآپ دوسروں کو عطیہ کیسے کر سکتے ہیں،یہ تو نعمت خداوندی ہے اوراس کے بارے میں آپ سے آخرت میں پوچھ گچھ ہو گی۔ مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے کہ جب ہم سب اپنے اپنے جسموں کے ساتھ غلط کرتے ہیں چاہے وہ زبان کے ذریعے جھوٹ بولنا ہی کیوں نہ ہو تو ہم اس بنیادی نکتے کو بھول جاتے ہیں اور یوں بھی جو لوگ میرا’ جسم میری مرضی‘ کا نعرہ لگاتے ہیں و ہ دین کی تشریحات کو تسلیم نہیں کرتے۔

مَیں بھی دوٹوک انداز میں میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو مسترد کرسکتا ہوں، مگر میرے سامنے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا وہ واقعہ موجود ہے جس میں ایک شخص نے اپنے ہمسائے میں رہنے والی لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور جب اس کو تھانے کچہری میں لے جانے کا معاملہ آیا تواس کے خاندان والوں نے اپنی ایک بچی کو بدلے میں زیادتی کے لئے پیش کر دیا کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ’ میرا جسم میری مرضی‘ کے فارمولے کو تسلیم نہیں کرتا تھااوراگر کوئی کرتا تھا تو وہ جس نے زیادتی کی۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پیدا کی ہوئی لڑکیوں کے جسموں ہی نہیں روحوں پر بھی ان کا حق ہے جو بری طرح سے کچل دی گئی ہیں۔میں اس فارمولے کو دوٹوک انداز میں اس لئے بھی مسترد نہیں کرسکتا کہ میں اس معاشرے میں رہتا ہوں جہاں اب بھی بہت سارے لوگ اپنی بہنوں ، بیٹیوں کو کسی ڈھور ڈنگر کی طرح ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے پر باندھ دیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی ان کے جسموں پر ان کا حق تسلیم نہیں کرتے، حالانکہ پسند ناپسند کاحق تو میرا مذہب بھی دیتا ہے۔

مَیں انکار نہیں کرتا کہ عمومی طو ر ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ منفی قسم کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بھارت کے مقابلے میں کچھ محدود ہے، مگر ہماری ہمسایہ ریاست میں یہ معاملات عدالتوں تک میں پہنچے ہیں کہ کیا شادی ہونے کے بعد بھی ایک بیوی کو حق زوجیت ادا کرنے سے انکار کا حق ہے۔

ہم ایسے مباحث شرمناک سمجھتے ہیں، مگر ایسے معاملات کے نتائج ان سے کہیں زیادہ شرمناک اور افسوسناک ہوتے ہیں۔میری ذاتی رائے ہے کہ نکاح اور شادی کا مطلب ہی اجازت ہے، اثبات ہے، آمادگی ہے مگر اس اجازت کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ یہ مادر پدر آزادی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کو قانون اجازت دیتا ہے کہ آپ جب چاہیں مری چلے جائیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے جائیں یا اس وقت مری جانے کی ضد کریں جب مری جانے کے راستے کسی بھی وجہ سے بند ہوں،جی ہاں، ہر آزادی اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور کچھ پابندیاں بھی لاتی ہے اوراس سلسلے میں ہر معاشرہ کچھ مختلف عمومی روایات رکھتا ہے۔

جومعاشرے ’میرا جسم میری مرضی کے فارمولے کو یک طرفہ طور پرمکمل قبول کرتے ہیں، وہاں عمومی طور پرجسم فروشی ایک باقاعدہ قانونی کاروبار کی شکل میں بھی نظر آتی ہے جو ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔

اسی بحث سے متعلقہ ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ جب ایک عورت میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتی ہے تو کیایہ نعرہ ایک مرد بھی لگا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہمیں اس بارے بہت سارے کھلے ڈلے جوابات ملتے ہیں۔ کیا ایک مرد کسی عورت کو گھورنے پر کہہ سکتا ہے کہ میری آنکھیں ، میری مرضی ۔ یہ کہ میرے ہاتھ ہیں اور میری مرضی کہ تمہیں جس طرح مرضی چھووں۔

اسی طرح جب ایک عورت اپنے جسم کی اس طرح نمائش کرتی ہے کہ وہ دوسروں کی طبیعت پر اثرانداز ہو تواس کو بھی کہا جاسکتا ہے کہ جسم واقعی تمہارا ہے، مگر اس کا وہی استعمال کیا جا سکتا ہے،جو دوسروں کے لئے کسی دعوت، شہوت اور تکلیف کا باعث نہ ہو۔

ہم سب کی تمام آزادیاں وہاں پابندیوں کا شکار ہوجاتی ہیں،جہاں سے دوسروں کی ناک شروع ہوتی ہے لہٰذا اگراس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیوں کو بھی انسان سمجھا جائے بھیڑ بکریا ں نہیں اور انہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے دنیا بھر میں ہونے والے ایسے شرمناک معاملات سے تحفظ دیا جائے تو میں اس نعرے کا سب سے بڑا حامی ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ یہ نعرہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے اور جب آپ کسی دوسری نیک عورت کے اس حق کی نفی کرتے ہیں کہ وہ چادر اور چاردیواری کا چناو کرے، اسے ایک گلی سڑی لاش قرار دیتے ہیں تومیں آپ کی منافقت ہی نہیں بلکہ بدنیتی پر بھی تشویش کا شکار ہوجاتا ہوں کیونکہ میں اندھا نہیں ہوں، احمق نہیں ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.