بلاک چین ٹیکنالوجی کو اپناکر دنیا تیز سےتیز تر ہوجائے گی

بنی نوع انسان اپنے اندر جو خصوصیات رکھتا ہے، ان میں ’’ایجاد‘‘ کی صفت بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں کا مالک بنایاہے۔ پہیہ کی ایجاد سے لے کر کائنات تسخیر کرنے میں مگن یہ انسان، معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے طرح طرح کی ایجادات میں مصروف ہے۔ کبھی یہ ایجاد جنگ و جدل میں خود انسانوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے تو کبھی اسی جان کو بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

کمپیوٹر کی ایجاد سے بہت سارے ایسے مشکل کام جو دنوں میں ہوتے تھے، اب منٹوں اورسکینڈوں میں ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں انٹرنیٹ نے تو دنیا کو سکڑ کر رکھ دیا اور رابطوں میں تیزی سے گلوبلائزیشن، عالمگیریت اور گلوبل ویلیج کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ رابطوں میں تیزی کی وجہ سے دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہوا اور اب ہم ڈیجیٹل Era یا ڈیجیٹل دور سے گزر رہے ہیں، جہاں کاروبار زندگی آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI)کے ساتھ اب کمپیوٹر اور اسمارٹ فونز کی کلک پر میسر ہے۔

حال ہی میں فنانشل ورلڈ یا کاروباری دنیا میں ایک نئی کرنسی کا چرچہ عام ہوا ہے، اور وہ ہے بٹ کوائن یا کرپٹوکرنسی، جس کی ماہیت صرف ڈیجیٹل ہے۔ ہر ایجاد کے منفی اور مثبت پہلو ہوتے ہیں۔

اس ایجاد کا مثبت پہلو، اس کے پیچھے چلتا ایک ڈیجیٹل نظام ہے، جو بلاک چین (Block Chain) کہلاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں ہونے والی ہر ٹرانزیکشن اب جلد اس ٹیکنالوجی پر منتقل ہوجائے گی۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے اور اس سے جڑے دیگر منصوبوں کی وجہ سے پاکستان میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی متوقع ہے اور اب ہمیں ترقی کے لیے چین کے ساتھ اس کی رفتار میں چلنا ہوگا۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ مالیاتی دنیا میں آنے والی جدیدیت کو سمجھنے کے لیے ہم سہل پسندی کے بجائے تیزی دکھائیں۔ ایسی ہی ایک جدت ’’بلاک چین ٹیکنالوجی‘‘ ہے۔

’’بلاک چین‘‘ بنیادی طور پر ایک ایسا روزنامچہ ہے، جہاں نیٹ ورک میں تمام شرکت کار اپنی ٹرانزیکشنز رجسٹر کررہے ہوتے ہیں۔ بلاک چین، ڈیٹا بیس کی طرح برتاؤکرتا ہے، یہ ایسی جگہ ہے جہاں نیٹ ورک کے تمام شریک کار اپنا ڈیٹا نیم عوامی درازیا کنٹینر ، جسے اس ٹیکنالوجی میں ’’ بلاک‘‘ کہتے ہیں، اس میں اسٹور کرتے ہیں۔

بلاک چین میں رکھنے سے پہلے ہر بلاک کی تصدیق شریک کاروں کی طرف سے کی جاتی ہے۔ مائنرز کی طرف سے نیٹ ورک محفوظ کیا جاتا ہے، جو انٹرنل ٹرانزیکشن کی توثیق اور تصدیق کرتے ہیں۔

بلاک چین ایک نیا تنظیمی تصور ہے جو انٹرنیٹ کے اپنے پروٹوکول کے ساتھ تیکنیکی درجے اور بہت ساری اپلیکیشنز کے ساتھ، اثاثہ جات کی رجسٹری، انونٹری اور ایکس چینج، بشمول فائنانس کے تمام شعبہ جات، معاشیات، زر، ٹھوس اثاثہ جات، جیسے جائیدار اور محسوس نہ ہونے والے اثاثہ جات جیسے ووٹ، خیالات، نیت اور صحت کے اعداد و شمار، کے بارے میں معلومات وغیرہ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔

جاپان، امریکاا ور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کرپٹو کرنسی کو محدود پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں اور اس نظام کی ترویج میں بھی مصروف ہیں۔ اگر متحدہ عرب امارات کی بات کی جائے تو دبئی ایک ایسا ملک ہے جو ہر جدت کو اپنانے میں سرفہرست رہتا ہے۔یہاں تک کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کے لیے وہاں ایک علیحدہ وزارت قائم کر دی گئی ہے۔

دبئی کی حکومت اب ایک نیا قدم اٹھانے والی ہے اور وہ ہے بلاک چین کی مدد سے کام کرنے والی دنیا کی پہلی حکومت کی تشکیل۔ دبئی کی حکومت نے 2020 تک تمام ویزہ درخواستیں، بل کی ادائیگیاں اور لائسنسوں کی تجدید کے لیے بلاک چین کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا تو اندازہ ہے کہ دبئی کی حکومت 25.1 ملین گھنٹوں کی بچت کرے گی، جس کی وجہ سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔

اس کےعلاوہ، دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ نے بھی جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے بلاک چین سے چلنے والے نظام کو استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اس طرح مالیاتی سودے محفوظ بنانے، ریکارڈ مرتب کرنے اور گھروں کے مالکان اور مکینوں کو یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی میں آسانی ہوگی۔دبئی اپنی خود کی کرپٹوکرنسی ایم کیش EM-Cash جاری کر چکا ہے۔

روس میں بھی بلاک چین ٹیکنالوجی پر کام کیا جا رہا ہے۔ روس میں قرضہ فراہم کرنے والے سب سے بینک، سبربینک نے ایک لیب کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ روسی بینکاری نظام کے سربراہ کے مطابق، یہ لیب بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی سلوشنزSolutions تیار کرنے کے لئےکام کرے گی اور مختلف مصنوعات کے پروٹوٹائپ بنائے گی۔

سلک روٹ ورلڈ آرڈر کے بانی اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے مؤجد ملک چین میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حثیت حاصل نہیں ہے۔مگر چین وہ ملک ہے جو کرپٹوکرنسی اور اس کے پیچھے موجود بلاک چین کے نظام کو عملی شکل دینے میں مصروف ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، چین شاید وہ پہلا ملک ہو جو ڈیجیٹل کرنسی کا مرکزی بینک(Central Bank of Digital Currency) قائم کرے گا۔اس کے علاوہ چین روزمرہ خریدوفروخت اور لاجسٹک انڈسٹریز میں بلاک چین کو بڑے پیمانے پر متعارف کروائے گا۔

بلاک چین کے نظام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین نے اس ٹیکنالوجی کو اپنے تیرھویں پانچ سالہ منصوبے میں شامل کیا ہے اور مختلف تجربات کے بعد اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اس نظام کو بہت جلد عملی شکل میں لاگو کیا جا سکے۔ سلک روٹ ورلڈ آرڈر کی کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب ڈالر میں لین دین کم سے کم ہو اور اس لیے چین چاہتا ہے کہ بین الاقوامی لین دین چینی ڈیجیٹل کرنسی میں ہو، جس میں کوئی تیسرا شریک کار نہ ہو۔

اس کے علاوہ ون بیلٹ ون روڈ کی تکمیل سے ٹرانزیکشنز بہت زیادہ ہوں ،گی جبکہ بلاک چین ٹیکنالوجی کی وجہ سے کاغذات کا استعمال بہت کم ہو جائے گا، جس کی وجہ سے رپورٹنگ اور ریکارڈ کی درستگی و حفاظت، ٹرانزیکشنز کو شفاف رکھیں گی۔

اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی بلاک چین ٹیکنالوجی پر بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں اس پر کام کیا جارہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت، ریگولیٹری ادارے، مالیاتی نظام اور دیگر اسٹیک ہولڈرز، پاکستان میں اس نئی ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کس طرح کے اقدامات کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.