میرا انقلابی فیصلہ

کسی کو اچھا لگے یا برا، کوئی خوش ہو یا ناراض، میں نے اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت عام عوام پارٹی میں شامل ہونے کا انقلابی فیصلہ کرلیا ہے۔ مجھے علم ہے کہ نواز شریف ہوں یا آصف زرداری ان سب کو میری اس پارٹی میں شمولیت پر بہت اعتراض ہوگا۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن بھی میرے اس فیصلے پر خوش نہیں ہوں گے، مگر میں کیا کروں ملکی مفاد یہی ہے کہ مستقبل میں عروج پانے والی پارٹی، عام عوام پارٹی میں شامل ہوجائوں تاکہ کہیں تاریخ میں میرے نام کا ذکر بھی آجائے اور یہ بھی لکھا جائے کہ میں انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہوگیا تھا۔
ہر خاص و عام کو یہ خبر بھی ہو کہ آج سے میرے لیڈر خادم مصطفیٰ، قائد عام عوام، مخلص ملک و ملت سہیل ضیاء بٹ ہیں، وہی اس ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں ،صرف وہی اس ملک کے غریب عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ میرے لیڈر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 2018کے الیکشن میں کسی سابق ایم این اے یا ایم پی اے کو ٹکٹ نہیں دینا بلکہ عام عوام کو پارٹی ٹکٹ دئیے جائیں گے۔ موچی، نائی، ڈرائیور اور باورچی عام عوام پارٹی کے ممکنہ ٹکٹ ہولڈر ہوں گے۔ میرے لیڈر نے ماڈل ٹائون لاہور سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ میرے ڈرائیور سلیم کو دینے کا اعلان کر رکھا ہے جب سے یہ اعلان ہوا ہے سلیم گاڑی چلاتے ہوئے پورا ایم این اے بن جاتا ہے اور کئی دفعہ میری طرف ایم این اے جیسے متکبرانہ انداز میں نگاہ بھی ڈالتا ہے۔ بٹ صاحب نے اسی طرح کی پیشکش اپنے سب ملنے والوں کے ڈرائیوروں اور باورچیوں کو رکھی ہے۔ سہیل ضیاء بٹ کے اس انقلابی اقدام سے متاثر ہو کر ہی میں نے عام عوام پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔
کوئی مانے نہ مانے ، مگر سچ یہ ہے کہ خادم عوام سہیل ضیاء بٹ نے اپنے پہلوانی جسم اور لمبے قد کے باوجود بڑی بڑی گاڑیاں رکھنا چھوڑ دی ہیں، اب وہ صابن دانی یعنی سب سے چھوٹی کار میں سفر کرتے ہیں، اسی طرح انہیں ’’بہت زیادہ‘‘ کھانا کھانا اچھا لگتا تھا لیکن غریب عوام کی محبت میں انہوں نےکوکنگ آئل کا استعمال چھوڑ دیا ہے، ڈائٹنگ کررہے ہیں اور امید ہے کہ اگر ان کی خوراک کے کم استعمال کی یہی مقدار جاری رہی تو اگلے 30سال میں ان کا وزن مزید پانچ پائونڈ کم ہوجائے گا۔
ذکر شروع ہوا ہے تو کیوں نہ بتادیا جائے کہ اصل قصور میرا ہے۔ سہیل ضیاء بٹ 1994میں گرفتار ہوئے تو میں نے ایک کالم میں ہلکے پھلکے انداز میں لکھ دیا کہ اب نواز شریف کو فکر کی ضرورت نہیں سہیل ضیاء بٹ جیل کاٹنے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کے اہل ہوجائیں گے۔ بقول خادم عوام بٹ صاحب، ان کی بدقسمتی کا آغاز میرے اس کالم سے ہوا اور شہباز شریف نے وزارتِ اعلیٰ کے لئے انہیں خاندانی حریف گردانتے ہوئے پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔بٹ صاحب کے مطابق وہ دن اور آج کا دن ،شہباز شریف نے انہیں انتقام کا نشانہ بنا رکھا ہے کہیں ان کی دوکانیں گرائیں تو کہیں ان کے بیٹے کا ٹکٹ ماردیا۔ اپنی رشتہ دار خاتون سے کوٹھی خرید ی تو شہباز شریف اس خاتون کے بیٹوں کے طرفدار بن کر سامنے آئے اور اب تک بقول بٹ صاحب ان کو قبضہ نہیں مل سکا، اگر خادم عام عوام کی بات مان لی جائے تو ان کا پچھلے 9سال براہ راست مقابلہ خادم ِ اعلیٰ سے رہا۔ اس مقابلے میں خادم ِ عام عوام ہار مان گئے اور ن لیگ کی سیاست چھوڑ کر عام عوام پارٹی بنالی۔
عام عوامی پارٹی کوئی تانگہ پارٹی نہیں اس کے سیکرٹریٹ میں 3ہمہ وقتی کارکن کام کرتے ہیں، غازی صاحب سیکرٹری ہیں جو خواجہ رفیق شہید کے ساتھی تھے اور یوں سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک کیمرہ مین ہے جو موبائل میں سہیل ضیاء بٹ صاحب کے اٹھنے، بیٹھنے، ہاتھ ملانے، کھانا کھانے، تقریر کرنے ، مسکرانے حتیٰ کہ غصہ کرنے تک کے تاریخی لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے فیس بک کی ہمیشہ زندہ رہنے والی تاریخ کا حصہ بناتا رہتا ہے۔ میں جب بھی عام عوام پارٹی کے دفتر گیا ہوں وہاں جاکر یہی خبر ملتی ہے کہ تخت لاہور کا تختہ بس الٹنے والا ہی ہے، بٹ صاحب کے کارکنوں کو یقین ہے کہ 2018کے الیکشن میں لاہور کی تمام نشستیں عام عوام پارٹی کو ملیں گی اگر ان کارکنوں سے کوئی پوچھے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوگا تو وہ جواب دیتے ہیں کہ غریب عوام انقلاب کے لئے تیار ہیں جونہی چیئرمین بٹ صاحب کال دیں گے عوام لاہور میں نکل کھڑے ہوں گے اور گھنٹوں میں ہر طرف عام عوام پارٹی کا ڈنکہ بجنے لگے گا۔ سازشی تھیوری کہتی ہے کہ چیئرمین عام عوام پارٹی سہیل ضیاء بٹ کا ہدف پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ تجربے، قابلیت اور شہرت میں وہ خادم ِ اعلیٰ سے کہیں اعلیٰ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ چیئرمین کئی بار کونسلر رہے یوں زمینی حقائق سے بھرپور آگاہی رکھتے ہیں۔ ڈپٹی میئر رہے شہر کی خوبصورتی کے کئی فیصلے کئے فوارے لگائے ایم پی اے رہے اور ایوان کو اپنے مزاحیہ ریمارکس سے کشت زعفران بنائے رکھتے۔ بٹ صاحب کے کارکن سمجھتے ہیں کہ خادم عام عوام ، خادم ِ اعلیٰ سے کہیں بہتروزیراعلیٰ ثابت ہوں گے۔ وہ کئی برسوں سے شہباز شریف سے سیاسی اور ذاتی مقابلے کی تیاری کررہے ہیں مگر خادم اعلیٰ ہر بار غچہ دے کر مقابلے سے بچ جاتے ہیں، وگرنہ اب تک بٹ پہلوان پٹھہ ضیاء الدین پہلوان لازماً شہباز پہلوان پٹھہ شریف پہلوان کو شکست دے چکا ہوتا۔
میرے عام عوام پارٹی میں شمولیت کی جہاں اور بہت سی معقول وجوہات ہیں وہاں سب سے بڑی وجہ چیئرمین عام عوام پارٹی سہیل ضیاء بٹ کی کھانا کھانے اور کھانوں کی پہچان میں ان کی مہارت ہے۔ مجھے علم ہے کہ خادم اعلیٰ بھی اس معاملے میں خاصے ایکسپرٹ ہیں لیکن چیئرمین عام عوام پارٹی کا اس حوالے سے تجربہ اور زبان کا ذائقہ خادم اعلیٰ سے کہیں بہتر ہے۔ خادم عام عوام خوشبو سے ہی ا ندازہ لگا لیتے ہیں کہ امرتسری پلائو پکا ہے یا زعفرانی پلائو، وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں اگر دیسی گھی میں پکا ہوا دیسی مرغ کا قورمہ ہو تو اس کے ساتھ دودھ میں گندھے ہوئے نان ہونے چاہئیں، تلوں والا کلچہ کھانا ہو تو اس کے ساتھ ادھ رڑکی پیڑے والی لسیّ ہونی چاہئے، حلیم کھانی ہو تو بغیر تل والے نرم نان کھانے چاہئیں، ساگ ، مچھلی کھانی ہوتو سفید چاول کے ساتھ کھائیں، وڑی بھتہ کھانا ہو تو خمیری روٹی کے ساتھ کھائیں۔ غرضیکہ چیئرمین عام عوام کھانوں کا انسائیکلو پیڈیا ہیں انہیں اقتدار ملا تو ہر طرف کھانوں اور کھابوں کے پہاڑ ہوں گے۔ تنوروں پر گرم نان لگیں گے ، پلائو کے رنگ برنگے ذائقے ہوں گے۔ یہ سب خادم اعلیٰ کے دور میں نہیں ہو سکا عام عوام پارٹی کے دور میں ایسا ممکن ہوگا۔ آپ ہی بتائیں میرے سمیت عام عوام، چیئرمین سہیل ضیاء بٹ کا ساتھ کیوں نہ دیں؟
سب بھوکے ننگے عام عوام سے اپیل ہے کہ اگر وہ مستقبل میں ذائقہ دار کھانے کھانا چاہتے ہیں تو چیئرمین سہیل ضیاء بٹ کے ہاتھ مضبوط کریں ہمارے موچی ، نائی اور ڈرائیور بھائی برسراقتدار آئیں گے تبھی ہماری بھوک مٹے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.