قادری شو کی داستانِ امیر حمزہ

لاہور کے قادری شو کی داستان امیر حمزہ میں پنڈی کے کنوارے شیخ صاحب نے جو اُلٹا لوٹا گھمایا وہ ہمارے بڑے خان صاحب کو لے بیٹھا۔ عوام الناس کہتے ہیں یہ خان صاحب کو کیا ہوگیا کہ پنڈی کے شیخ نے استعفے کی جوبڑھک لگائی وہ انہیں اچانک اسٹیج پر ایک امتحان سے دوچار کرگئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب کو پنکی پیرنی کے تعویز اُلٹے پڑ گئے۔ اقتدار کے حصول کی خاطر جو تپسیا وہ کررہے تھے وہ اُلٹی تسبیح گھمانے سے غارت ہوتی نظر آنے لگی۔ مال روڈ پر خالی کرسیوں سے جو خطابات فرمائے گئے وہ عوام کی روز روز کے دھرنوں، اسٹیج پر بیٹھے سیاسی مخالفین کے گٹھ جو ڑ سے عوام کی بیزاری کا نتیجہ نظر آرہی تھی۔ شیخ صاحب تو اپنی چال چل گئے مگر خان صاحب کو جس امتحان میں ڈال گئے اس کا خمیازہ آنے والے وقتوں میں بھگتنا پڑے گا۔ بزرگوں سے سن رکھاہے انسان کو جس کاروبار سے رزق نصیب ہو اسے کبھی برا نہ کہو ۔ اس کی قدر کرو، قدر نہیں کرو گے تو رزق سے بھی جائو گے اور بے قدری کا سامنابھی ہوگا، خدا بھی ناراض ہوگا اور دنیا بھی ہاتھ سے جائے گی مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ ہمارے خان صاحب نے پارلیمنٹ پر جو لعنت بھیجی گویا ساڑھے چار سال سے جس پارلیمنٹ میں وہ منتخب نمائندے کی حیثیت سے بیٹھے ہیں اور انہیں اس عوامی خدمت کے عوض لاکھوں روپے کی جو مراعات حاصل رہیں وہ نہ صرف ان مراعات کے مزے لوٹتے رہے اور وہ اسی پارلیمنٹ کے نام پر عوام کے دلوں پر کسی حد تک راج کرتے ہیں۔
کہنے کو تو ہمارے خان صاحب پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے قائدہیں اور انہیں انتظارمیں بیٹھے وزیراعظم کے طور پر بھی جانا جاتاہے لیکن محسوس ایسا ہونے لگا ہے کہ اقتدار کی جنگ میں ایک بار پھر وہ مایوسی کا شکارہیں۔یہ جو پارلیمنٹ پہ لعنت ملامت وہ کررہے ہیں کسی صورت جمہوری رویہ نہیں۔ لوگ کہتے ہیں خان صاحب کی اپنی سوچ کچھ نہیں، وہ لوگوں کی کہی سنی باتوں پر بلاسوچے سمجھے عمل اور رد عمل کرتے ہیں اور حقائق جانے بغیر عوامی اجتماعات میں فرمودات داغ دیتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ پنڈی کے شیخ صاحب اپنی ایک سیٹ کی خاطر پورے نظام کو لپیٹ دینا چاہتے ہیں یہ سوچ تو خان صاحب کے سیاسی کیریئر کو داغ دار کردے گی۔ خان صاحب آج جس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہے ہیں پہلے تو اس بات کا حساب کرلیں کہ آپ نے جن نکات کی بنیاد پر پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی ہے اس میں آپ کا اپنا کردار کیا ہے۔ جس پارلیمنٹ پر آپ الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ایک نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کی منظوری دی اور اس جیسے بے شمار قوانین اور پارلیمانی مراحل ایسے آئے جہاں آپ کو پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر اپنا کردارادا کرنا تھا لیکن آپ نے دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے اور حق نمائندگی ادا کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کو جوتے کی نوک پر رکھا اور گزشتہ سال صرف دو دن پارلیمنٹ میں تشریف لائے۔
سچ یہ ہے کہ ایک قانون ایسا بھی ہونا چاہئے کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ کی ایوان کے اندر حاضری اور کارکردگی کی بنیاد پر انہیں تنخواہ اورمراعات دی جائیں اور اسی بنیاد پر اہل و نااہل قرار دیا جائے۔ بڑے خان صاحب کی شخصیت کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ ساڑھے چار سال تک ’’تاریخی استعفوں‘‘ اور پارلیمنٹ سے طویل غیر حاضری کے باوجود آپ اور آپ کے اراکین عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے کروڑوں روپے کی مراعات اور تنخواہوں سے استفادہ کرتے رہے مگر قانون سازی میں اپنا کوئی کردار ادا نہ کیا۔ آپ میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے سڑکوں پر فیصلے لینے میں مصروف رہے یہ جو پاکستان کے جمہوری نظام اور پارلیمنٹ کو گالیاں دی جارہی ہیں ، دراصل آسمان پر تھوکا اپنے منہ پر آنے والی بات ہے۔ آپ جتنا مرضی شور مچائیں، آنے والے وقت میں اگر اقتدار کی دیوی آپ پر مہربان ہوگئی تو یہ جو جمہوریت کی جڑوں میں دھرنوں اور احتجاج کی آکاس بیل آپ نے بوئی ہے کل آپ کے اقتدار کو بھی چلنے نہیں دے گی۔
ہمارے کینیڈا والے ڈاکٹر صاحب کی تو بات ہی نہ کیجئے کہ اتنے روحانی طورپر پہنچے ہوئے ہیں کہ لاہور میں میچ شروع ہونے سے پہلے ہی میچ کے نتیجے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ پنڈی والے شیخ صاحب کو میچ سے قبل ہی مین آف دی میچ قرار دے دیا۔ میچ فکسنگ کے ماہر تصور کئے جانے والے کینیڈین ڈاکٹر صاحب کو بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم سے جوڑنے والے اور ہمارے زرداری صاحب کے تو کیا کہنے کہ اپنا کام نہایت مہارت سے سر انجام دیتے ہیں۔ گھوڑوں کی کمال پرکھ رکھنے کی خداداد صلاحیت آج انہیں ایک بار پھر پنجاب میں جلاء بخش رہی ہے۔ انہوں نے لاہور کے اسٹیج پر زیادہ دیر قبضہ نہیں کیا مگر تخت ِ لاہور کو اپنی میٹھی آواز میں گونج دار پیغام ضرور دیا۔ بس ذرا یوں سمجھئے کہ اس قادری شو میں جہاں بڑے خان صاحب کی کہانی ختم ہوتی ہے، زرداری صاحب کی کہانی وہاں سے شروع ہو چکی۔ زرداری سب پر بھاری، پارلیمنٹ بھی بچائیں گے، جمہوریت کی عمل داری میں بھی حصہ لیں گے اور انصافیوں کے ساتھ انصاف بھی کریں گے۔ وہ تخت لاہورسے اپنا حصہ لئے بغیر گھر نہیں جائیں گے۔ ان کے گھوڑے بڑے نسلی ہیں جن کا چارہ اب جاتی امراء سے ہی آئے گا، بلوچستان میں وہ اپنا کام دکھا چکے۔ سینیٹ انتخابات اور عام انتخابات میں انہیں حصہ ملے گا تو تخت لاہور چلے گا۔ یہ قادری شو کی داستان امیر حمزہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔
دیکھیں نا یہ گھر گھر گھومنے اور محلے کی تازہ ترین خبروں کی کھوج میں رہنے والے ہمارے معزز ترین مولانا صاحب بھی کیا کمال کی شخصیت ہیں۔ زرداری صاحب کے ساتھ بلوچستان میں جو کامیاب معرکہ آرائی کی اس کی مسکراہٹیں بلاول ہائوس لاہور میں دیکھی گئیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں خیبرپختوا کو آئندہ منزل طے کرلیا گیا۔ پاکستان کی سیاست کے یہ دو بڑے جادو گر جب کسی چیز کی ٹھان لیں تو پھر پیچھے ہٹتے نظر نہیں آتے۔ ہمارے بڑے میاں صاحب نے مولانا صاحب کی بات نہیں مانی اب یہ جادو خیبرپختونخوا میں سر چڑھ کر بولے گا اور بڑے خان صاحب کی یہ خوش فہمی کہ خیبرپختونخوا تحریک انصاف کا قلعہ ہے جاتی امراء کی طرح سیاسی کھنڈر ثابت ہوگا۔ آنے والے دنوں میں اقتدار کی طاقت پنجاب سے خیبرپختونخوا ،سندھ اور بلوچستان کے گرد گھومے گی، اسمبلی ٹوٹے گی نہ کوئی سیاسی بحران آئے گا ۔ یہ نظام یونہی چلتا رہے گا۔ لمحہ فکریہ صرف یہ ہے کہ اقتدار کی دوڑ میں ہمارے سیاست دان پاکستان کو بھول گئے۔ اس کو درپیش مسائل کو بھول گئے۔ دشمن کی چالوں کو نظر انداز کرکے صرف اقتدار اقتدار کھیل رہے ہیں کسی کو احساس نہیں امریکہ افغانستان میں کیا جال بچھا چکا ہے۔ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ ہمیں کیا نقصان پہنچائے گا۔ یہ نئی دہلی میں اربوں، کھربوںڈالر کے دفاعی معاہدے، گولوں توپوں کی خریداری ، کھلے عام پاکستان کو دھمکیاں کیا گل کھلائیں گی ، کبھی کسی نے سوچاہے، اقتدار تو آنی جانی شے ہے۔ چار حرف ہوں ایسی سوچوں پر جو صرف اقتدار تک محدود ہوں۔ ایسی پارلیمنٹ کو آخر کیا نام دیا جائے جو مفادات کی شکار ہو اور جو بیک زبان دشمن کو للکارنے سے عاری ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ لعنت ملامت کی بجائے سیاست دانوں کے ذریعے بین الاقوامی ٹھوس سفارت کاری ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.