انتظا ر کرو۔

بابا اسکرپٹ جو بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ2018ء کے الیکشن ممکن نہیں ہیں اب اپنی من گھڑت اور خود ساختہ باتوں سے ایک نئی تھیوری پیش کررہے ہیں۔ ملاقات کے دوران بابا اسکرپٹ بیماری سے بحالی کے بعد نہ صرف زیادہ چاق وچوبند نظر آرہے تھے بلکہ گفتگو کے دوران ا ن کی گھن گرج بھی محسوس کی جاسکتی تھی۔ کہنے لگے شطرنج کی نئی گیم تیار ہے اور سب اپنے اپنے پیادوں ،وزیروں، مشیروں اور اہم مہروں کو نئی چالیں سونپنے کے لیے صف بندی کررہے ہیں ۔میںنے کہا سرچند روز پہلے جوآ پ کہہ رہے تھے اب اس میں کوئی تبدیلی آرہی ہے ؟کہنے لگے موسم اور وقت کی نزاکت اور درپیش حالات کے مطابق تھنک ٹینکس کو ابھی اپنی حکمت عملی بدلنی پڑتی ہے۔ اس لیے اس میں حیران نہیں ہوناچاہیے۔ لیکن ایک بات یادرکھنا فیصلہ سازوں کونتائج اب بھی وہی درکار ہیں جوانہوںنے طے کررکھے ہیں۔ میں نے کہا سر اب کیا ہورہا ہے توکہنے لگے میر ے پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک بہت اہم رہنماء کیساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں۔اس نے مجھے بتایا ہے کہ مولانا طاہرالقادری کے ذریعے تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کو ساتھ بٹھانے کے بعد آئندہ انتخابات میں بھی مل کر حکمت عملی بنانے کا فارمولہ ناکام ہوچکا ہے۔ پیپلزپارٹی جس نے یہ سوچ رکھا ہے کہ اگلا وزیر اعظم اگر سوفیصد تو نہیں 95 فیصد انہیں کا ہوگا۔ اس گیم پلان کے ناکام ہونے کے بعد اب نئی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے ۔پیپلز پا ر ٹی ایڑ ی چو ٹی کا زور لگا نے کا سو چ رہی کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی چالیس سیٹیں حاصل کرے ۔اس کے لیے ان کے پلان کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان کو پارٹی چھڑواکر اگر آزاد حیثیت سے بھی الیکشن لڑایا جائے تواس میںکوئی مضائقہ نہیں اور الیکشن جیت کر وہ اپنی حمایت کا وزن پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈال دیں ، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی بعض شخصیات جنہیں پیپلزپارٹی کے نام پر تو ووٹ نہ پڑیں لیکن آزاد حیثیت میں وہ پیپلزپارٹی کے علاوہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے کچھ ووٹ بھی حاصل کرکے پوزیشن مستحکم کرسکیں ۔ پیپلز پا ر ٹی کا خیا ل ہے کہ آ ئندہ الیکشن میں کو ئی بھی پا ر ٹی اکثر یت حا صل نہ کر سکے گی اور اگر ان حا لا ت میں پی ٹی آئی پنجاب اور ملک بھر سے زیادہ سیٹیں حاصل کربھی لے لیکن وہ کسی دوسری جماعت کی حمایت حاصل نہ کرسکے گی اور بغیر کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کے اس کے پاس اتنی اکثریت نہ ہوگی کہ وہ حکومت بنا سکے اور مسلم لیگ ن کے لیے بھی یہ قابل قبول ہوگا کہ وہ پی ٹی آئی کے مقا بلے میں کچھ شرائط کے ساتھ پیپلز پارٹی کا وزیراعظم بنانے میں اس کی مدد کرے اور اس حوالے سے بیک ڈورڈپلومیسی شروع ہوچکی ہے ۔اے این پی اورمولانا بھی اپنا سیا سی وزن پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈالیں گے۔ لیکن اصل لڑائی پنجاب کی ہے۔ یہ لڑائی نہ صرف سیاسی پارٹیوں کی ہے بلکہ آپس کے خاندانوں کی بھی ہے ، ہر کوئی چا ہتا ہے کہ مر کز کے سا تھ ساتھ پنجا ب کا اقتدا ر بھی ملے تو با ت بنتی ہے ۔میں نے بابا اسکرپٹ سے پوچھا سر کیا اب پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد یا ساتھ بیٹھنے کے امکانات ختم ہوچکے ہیں ؟بابا نے کہا نہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے آصف زرداری کی بجائے بلاول ڈرائیونگ سیٹ پر ہو اور دونوںجماعتوں کے اتحاد کی صورت میں پیپلزپارٹی پنجاب پی ٹی آئی کو دے سکتی ہے اورمرکز میں اپنا وزیراعظم بنا کر پی ٹی آئی کے وزراء لے سکتی ہے۔ میںنے بابا سے پوچھا کہ کیا سانحہ ماڈل ٹائون کا احتجاج اب اس زور وشور سے نہیں ہوگا ؟ با با نے کہا اب قا دری ا حتجا ج یا دھر نا اتنا زور دار نہ ہو سکے گا ،لیکن بابا اسکرپٹ نے اگلی بات کرکے ایک مرتبہ پھراپنی ہی کی ہوئی من گھڑت باتوں کی نفی کردی کہنے لگے یہ ساری منصوبہ بندی تو سیاسی پارٹیوں نے کررکھی ہے۔ ایک منصوبہ بندی اور بھی ہے ۔میںنے حیران ہو کر پوچھا وہ کیا؟کہنے لگے اس کا جواب تمہیں ایک دو ہفتوںکے بعد مل جائے گا۔فروری کا مہینہ نئی حشر سامانیوں کے ساتھ آرہاہے۔ اوراس ننھے سے 28 دنوںکے مہینے میں بڑے بڑے کام ہونے جارہے ہیں ۔میںنے تجسّس سے مجبور ہو کر بابا سے اگلوانے کیلئے تھوڑا اصرار کیا تو بابا کہنے لگے ،انتظار کرو۔۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.