جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے

وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے:نیب کا اصل چہرہ دکھائوں گا، جلد بتائوںگا مجھ پر اصل ’’مہربانی‘‘ کی وجہ کیا ہے۔ زرداری کی کرپشن بچہ بچہ جانتا ہے۔ عمران کو گالیوں سے فرصت ملے تو کام کرے۔ نیب کا اصل سابق چہرہ تو سب جانتے ہیں اس کا نیا چہرہ اگر خادم اعلیٰ جان گئے ہیں تو پھر دیر نہ کریں کیونکہ ’’دیر آید درست آید‘‘کی اب گنجاش نہیں۔ ’’اصل مہربانی‘‘ کی بھی قلعی کھول دیں۔ شاید شہباز شریف موجودہ ’’نیب بے عیب‘‘ پر سے پردہ اٹھانے کےلئے کچھ ایسا جانتے ہوں کہ ان پر اصل مہربانی کا سبب معلوم ہو جائے۔ ویسے اصل چہرہ تو وہی پرانا ہے بس ایک نئے چہرے کا اضافہ ہوا ہے اور یہ کرم بھی اسی کاہے۔ خادم اعلیٰ کو ہم نے تو ہمہ وقت کام کرتے دیکھا ہے۔ اگر وہ اپنے وزیروں اور ایم پی ایز کو قابو کرلیں تو نیچے تک آسکتی ہے تاثیر مسیحائی کی۔ غیرقانونی دھندوں کے پیچھے بھی کئی اصل مہربانیاں پوشیدہ ہوتی ہیں ان کو بھی بے پردہ کریں اور ضرور کریںگے۔ بات تو یہ ہے کہ انہیں کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ خان صاحب کے اندر سے دمادم یہ صدا آتی ہے نہ وزیراعظم بنیںگے نہ وزیراعلیٰ کو چلنے دیں گے۔ کیونکہ ایسا نہ کیا تو پرویز خٹک بے پردہ ہوں گے۔ زرداری کے بارے ن لیگ کی جانب سے شہباز شریف پہلے آدمی ہیں جنہوں نے ان کی کوبہ کو پھیلی ہوئی کرپشن کہانی کا بالجہر اظہار کیا۔ سوئس بنکوں کی جانب نہ جانے کیوںنیب کی نظر نہیں جاتی؟ حالانکہ وہاں پاکستانی قوم کی دولت کے انبار لگے ہیں۔ ایک اینکر نے ایک متاثر بزرگ سے پوچھا کہ آپ کے مکان گرانے کامنصوبہ ہے۔ آپ کی ناجائز زمین پر مکان گرادیئے گئے تو پھر بھی کیا آپ ووٹ ن لیگ کو دیں گے؟بزرگ نے باآواز بلند کہا ہمارے مکان گرادیں، ہمارا سب کچھ جلادیں کچھ بھی کردیں ’’اساں ووٹ فیر وی نواز شریف نو پانڑا اے‘‘ اور اینکر اپنا سا مائیک لے کر رہ گیا۔ عام آدمی کو پتا ہے کہ مسلسل مخالفت کی آندھیوں میں بھی ن لیگ اور بالخصوص خادم اعلیٰ پنجاب نے کام نہیں چھوڑا۔
٭٭٭٭٭
وہ آتے ہیں سگنلز نہیں آتے
یوں تو اب پاکستان میں ٹیلی کمیونی کیشن کی کمپنیوں کی کمی نہیں مگر ہم نام لئے بغیر تمام کے بارے میں صارفین کی بیشمار شکایات پر حکومت ِ پاکستان کی ٹیلی کمیونی کیشن کی وزارت کو مطلع کردیں کہ لاہور میں اکثر و بیشتر علاقوں مثلاً گڑھی شاہو سے مناواں تک کے رہائشی علاقوں میں عام شکایت ہے کہ آئی فون استعمال کرنے والوں کے فون میں وہ آتے ہیں سگنلز نہیں آتے اور یہ بھی بتاتے چلیں کہ تمام کمپنیوں کی موج لگی ہوئی ہے کہ ریٹ اونچے سگنلز پھیکے۔ جب بھی کسی نے واٹس ایپ استعمال کرنا ہو، کمپنی یہ کہتی ہوئی فوراً اسکرین پر آ جاتی ہے کہ Retry ۔بار بار کوشش سے رابطہ ہوگا مگر آپ منابھائی بن کر بھی لگے رہیں۔ ان بڑے بھائیوں کوترس نہیں آتا بالخصوص مغلپورہ سے تابخاک ِواہگہ نہر میں پانی آتا ہے، فضائوں میں کسی بھی کمپنی کے سگنلز نہیں آتے۔ اگر باغباں سوجائے تو پھل توڑنے والے سارا باغ اجاڑ دیتے ہیں۔ یہ عالم ہے محترمہ وزیرصاحبہ ٹیلی کمیونی کیشن آپ کی وزارت مبارکہ کا بھی کہ جس سے بات کرنا ہو وہ پیدل آ جاتا ہے ،کسی بھی کمپنی کے سگنلز نہیں آتے۔ کوئی کوئی شبھ گھڑی ہوتی ہے کہ صارف پکار اٹھتا ہے آگئے آگئے! چند پوش ایریاز میں سگنلز کی فراوانی ہوتی ہے کیونکہ وہاںعام لوگ نہیں رہتے۔ وہ جہاں بھی رہتے ہیں جن بھوت ان کے ساتھ رہتے ہیں عوامی بستیوں کو آج کے دور میں (Haunted Localities) کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ انٹرنیٹ صارفین اگر عام لوگ پارٹی ہیں تو ان کے آئی فونز گونگے بہرے اندھے رہتے ہیں اور اگر خاص لوگ پارٹی ہیں تو ان کی دوزخ میں بھی الگ سی جنت ہے جنہیں کسی حوالے سےبھی حزن و ملال دامن گیر نہیںہوتا۔ ٹیلی کمیونی کیشن کی وزیر صاحبہ کی بڑی نیک شہرت سنی ہے۔ ہم نے ان کو سچ کے سوا کچھ نہیں بتایا اور کامل یقین ہے کہ اب کم از کم لاہور کے انٹرنیٹ صارفین یہ نہیں کہیں گے کہ وہ آتےہیںسگنلز نہیںآتے۔
٭٭٭٭٭
سُریلے مولوی صاحبان
اکثر جو مولوی صاحبان سُر لگا کر تقریر کرتے ہیں انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے حالانکہ وہ اپنی مخصوص روانی میں ایسی ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ گویا سامعین کے سامنے جام جہاں نما رکھ دیتے ہیں۔ مگر پڑھا لکھا دانشور طبقہ ان کو لفٹ نہیں کراتا۔ سوشل میڈیا پر ہم نے ایک سُریلے مولوی کو ایک حدیث مبارکہ امپلیمنٹ کراتے ہوئے سنا تو دنگ رہ گیا۔ وہ اپنی مخصوص لے میں کچھ یوں فرما رہے تھے:’’او بیویاں نال پیار کرن والیو۔ خوشبوواں لان والیو، نمازاں تہاڈے پیو نے پڑھنیاں نیں‘‘ وہ سماجی، دینی اور سیاسی اصلاحات پر بھی کمال تبصرے کرجاتے ہیں۔ ایک مولوی سو اینکروں پر بھاری ہوتا ہے مگراسے کوئی موقع ہی نہیں دیتا۔ اینکر پرسنز سارے تو نہیں مگر اکثر قوم کا تلفظ غلط کرنے کے بھی ذمہ دار ہیں حتیٰ الامکان کو حتُی الامکان، بین َ الاقوامی کو بین ُ الاقوامی کہتے ہیں، خوش قسمتی کو خوش قِسَمُتی بولتے ہیں، اور یہ لفظ تو اینکر سے لے کر حکومتی شخصیات کے آخری سرے تک اسی طرح ہی ادا کیا جاتا ہے۔ پنجابی شخص کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی مادری زبان ہرزبان میں بولنے پر قدرت رکھتا ہے۔ خواجہ آصف اس فن میں یکتا ہیں۔ میرا تو ویسے ہی بدنام ہوگئی۔ ہم نے ملتان میں ایک مولوی صاحب کو تقریر کرتے ہوئے خود تھوڑی تھوڑی دیر بعد مائیک سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر مائیک کی جانب اشارہ کرتے سنا کہ ’’آپ کولوں وی ڈر لگدا اے‘‘ ہمیں کچھ سمجھ نہ آئی تو ایک شخص سے پوچھا یہ مولوی صاحب بڑے سُریلے ہیں مگر بار بار یہ کیا کہتےہیں ’’آپ کولوں وی ڈر لگدا اے‘‘ اس نے بتایا ان کو کسی نے یہ کہا ہے کہ مائیک میں کرنٹ ہوتا ہے اسے ہاتھ نہیں لگانا۔ بس اس دن سے یہ تقریر میں یہ جملہ وقفے وقفے سے ادا کرتے ہیں مگر ان کے مخصوص سُر کی روانی میں کسی کوپتا نہیں چلتا۔ ہم یہ بتاتے چلیں کہ مغلوںکے زمانے میں یہ آرڈیننس جاری کیا گیا تھا کہ کوئی شخص حکومت سے اجازت لئے بغیر اپنے نام کے ساتھ مولوی، ملّا یا مولانا نہیں لکھ سکتا اور نہ کہلا سکتا ہے مگر آج حکومتوںکو پروا ہی نہیں کہ مولوی کا کیا مقام ہے؟
٭٭٭٭٭
چھوٹے میاں! آئی لو یو
O۔ بلاول بھٹو:ججز انصاف دینے کے سوا سب کام کرتے ہیں۔
تو ججز کی کرسیاں آپ سنبھال لیں، سندھ درست ہو جائے گا۔
O۔ عمران خان کی زیرصدارت ماہرین قانون کا اجلاس۔ حدیبیہ کیس میں فریق بننے کا فیصلہ۔
سپریم کورٹ نے جب کیس بند کر دیا ہے تو ’’پواڑا‘‘ ضرور ڈالنا ہے۔
O۔ مودی:پاکستان سے بہت لڑ لیا اب غربت کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔
لگتا ہے مودی نے ہمارا کالم پڑھ لیاہے۔
O۔ شہبازشریف:میاںصاحب کہتے ہیں ’’آئی لو یو‘‘ اور میں بھی کہتا ہوں ’’آئی لو یو ، آئی لو یو‘‘
ایک لو یو اس لئے کہ وزیراعلیٰ بنایا ایک اس لئے کہ وزیراعظم بھی نامزد کردیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.