اسرائیلی، امریکی اور بھارتی گٹھ جوڑ خطرناک

سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے تہران میں 17 جنوری 2018ء کو اسلامی پارلیمانی یونین کے 13 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی، امریکی اور بھارتی گٹھ جوڑ کو انتہائی خطرناک قرار دیا، اس کے علاوہ انہوں نے القدس کے بارے میں امریکی اقدام کی شدید مخالفت کی کہ امریکی فیصلے نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ ہمارے خیال میں میاں رضا ربانی کا یہ بیان اِس گٹھ جوڑ کے نتیجے میںخطرناک صورتحال واضح کرتا ہے۔ امریکہ نے سارے اسلامی ممالک میں اپنی بنائی ہوئی تحریکوں کے ذریعے خونریزی کو فروغ دیا ہے، صومالیہ، نائیجیریا، مصر، سوڈان، عراق، شام، لیبیا، سعودی عرب، افغانستان، ایران، پاکستان اور دیگر ملکوں میں دہشت گردی کا جال بچھایا ہوا ہے اور پھر اُن ممالک کو دشنام دیتا ہے کہ ان ممالک میں دہشت گردی ہورہی ہے، اِس کو روکیں، پھر اُن پر دہشت گرد ملک ہونے کا تصدیق نامہ جاری کر دیتا ہے، اسی طرح بھارت نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، 1947ء سے اب تک کوئی ایک لاکھ سے زائد کشمیری جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں اور اب نہتے کشمیریوں کو معذور کررہا ہے، ہر روز مظاہرے ہوتے ہیں اور ہزاروں افراد بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ہورہے ہیں، پلاسٹک کی گولیوں سے درجنوں افراد کو معذور کردیا جاتا ہے۔وہاں کے نوجوانوں نے اس تحریک کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے اور تحریک کا زور اتنے مظالم کے باوجود بھی ختم نہیں ہورہا ۔ اس کے علاوہ سکھوں کی علیحدگی کی تنظیم، ناگالینڈ، بوڈولینڈ اور دیگر 67آزادی کی تحریکیں بھارت میں چل رہی ہیں جس کو وہ سختی سے کچل رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سرحدوں اور خصوصاً ورکنگ بائونڈری پر ہر روز بلااشتعال فائرنگ کرکے آزاد کشمیر کے نہتے کشمیریوں کو شہید کر دیتا ہے، وہ بھارتی آرمی چیف کے اس بیان کے عین مطابق ہے کہ پاکستان کو تکلیف پہنچانا اُن کی پالیسی کا حصہ ہے۔ اسی طرح فلسطین کو اسرائیل نے ایک قفس خانہ بنا دیا اور امریکہ نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کے بعد فلسطین کو آزاد ریاست بنانے کے معاہدہ کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور فلسطین جو پہلے ہی ایک بڑا قید خانہ بنا ہوا تھا اس میں اب ظلم و ستم بڑھ جانے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں، فلسطینی نڈر بچے اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو کر پتھر مارتے ہیں اور اسرائیلی اُن بچوں کا پیچھا کر کے مار دیتے ہیں، ایسی کئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ ایک خاتون صحافی نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں پر وہ ظلم کررہا ہے جو شاید تاریخ میں کسی اور قوم نے کیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فلسطینی بچے، عورتوں اور بوڑھوں پر شدید ظلم کرتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں گھس کر نوجوان نسل کو درندگی کا نشانہ بناتے ہیں، انہیں پکڑ کر لے جاتے ہیں اور پھر اُن کی کوئی خبر نہیں ملتی، اسی طرح نوجوان مرد یا فلسطینی خواتین و بچے جب کسی چوکی سے گزرتے ہیں تو اُن کی تضحیک آمیز طریقے سے تلاشی لیتے ہیں، اگر کوئی اس پر اعتراض کرتا ہے تو اُسے بُری طرح مارا پیٹا جاتا ہے اور مزاحمت پر یا تو جان سے مار دیا جاتا ہے یا تشدد کرکے گرفتار کرلیا جاتا ہے اور پھر وہ لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ چندی گڑھ کے ایک سیمینار نومبر 2005ء میں ایک اسرائیلی آرمی سربراہ کا کہنا تھا کہ فلسطین مسئلے کا سوائے اس کے کوئی حل نہیں ہے کہ تمام فلسطینیوں کو مار دیا جائے۔ انہوں نے جب یہ بات کہی تو پاکستانی وفد نے اس پر سخت احتجاج کیا جبکہ بھارت کے میزبانوں اور خصوصاً اُن لوگوں کو سانپ سونگھ گیا جو فلسطین کی آزادی کا دم بھرتے تھکتے نہیں تھے، البتہ اسرائیلی جنرل کی تقریر سے پہلے بیرسٹر نندیتا ہسکر نے یہ ضرور کہا کہ عجیب بات ہے کہ ہم فلسطین کی آزادی کی بات کرتے ہوئے جوان ہوئے اور تعجب ہوا کہ آج اُن کے خلاف بات کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تاہم اس وقت سے لے کر اب تک دریا کے نیچے سے بہت پانی گزر گیا ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہو گیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے 14 جنوری 2018ء سے چھ روزہ دورہ ،شروع کیا اور ہنود، یہود اور امریکہ کا گٹھ جوڑ دنیا کے لئے خطرناک بن گیا، جو دنیا کے لئے ظلم و ستم کے منصوبے اپنے ساتھ لے کر آئے گا جس سے مسلم دنیا خصوصاً پاکستان، ایران، عراق، شام، فلسطین اور کشمیر متاثر ہوں گے۔ کہتے ہیں اسرائیل کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے اور امریکہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو ٹیکنالوجی وہ خود عالمی معاہدوں کی وجہ سے نہیں دینا چاہتا وہ اسرائیل سے دلا دیتا ہے، اسرائیل نے امریکہ کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے، امریکی دانشورنوم چوسکی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کا تمام میڈیا تو نہیں لیکن موثر میڈیا پر اسرائیل کا کنٹرول ہے اور خود امریکی حکومت مختلف طریقوں سے دبائو ڈال کر اسے اسرائیل کے حق میں کر دیتے ہیں اسی دبائو کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ تعینات کیا کیونکہ اُن کی صدارت کی حلف برداری اور اس سے پہلے بھی میڈیا اُن کے خلاف تھا تاہم ان تینوں ممالک کے مفادات یکجا ہوگئے ہیں، اسرائیل، عظیم تر اسرائیل بنانا چاہتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں کسی بھی ملک کو رقبہ، آبادی یا فوجی اعتبار سے مضبوط ہو یا اس میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی ذرا بھی رمق موجود ہو، اسکے ٹکڑے کرنے میں لگا ہوا ہے بھارت بھی ایسا مہا بھارت بنانا چاہتا ہے جس کی سرحدیں ایران، افغانستان، پاکستان سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی ہوں، امریکہ دنیا پر اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے، چین کو محدود کرنا چاہتا ہے کہ اسکی بالا دستی چیلنج ہورہی ہے اب فلسطین کے مقابلے میں ترکی اور عرب حائل ہیں، مصر کو بے اثر کر چکا ہے، عراق کو خونریزی کرا کر تباہ کر چکا ہے، لیبیا کو خون میں نہلا دیا ہے، وہ پاکستان، ایران اور افغانستان کو بھی مشرق وسطیٰ کا حصہ سمجھتا ہے، اس لئے وہ ان کی سرحدی حدود سکیڑنا چاہتا ہے۔ بھارت کے عزائم کی راہ میں پاکستان رکاوٹ ہے، اس کو علاقے میں بالادستی قائم کرنے نہیں دیتا پاکستان ایک طاقتور ملک ہے،چین پاکستان اقتصادی راہداری نے تو بھارت، امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ کو مہمیز دیدی کہ اگر پاکستان اقتصادی طور پر مضبوط ہوگیا تو ایک خود مختار ملک بن جائیگا، اس لئے یہ سہ فریقی گٹھ جوڑ بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان، ایران، ترکی، چین اور روس باہمی اتحاد کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں، ٹرمپ کے افغانستان کے حوالے سے بیان پر جہاں چین، ترکی نے پاکستان کی حمایت میں بیان دیئے وہاں روس کے وزیرخارجہ نے بھی پاکستان کی حمایت میں بیان دیا، یوں پانچ ملکوں کے درمیان ایک قسم کی تعلق داری معرضِ وجود میں آرہی ہے، جو آئندہ چل کر کسی اتحاد کی شکل اختیار کر سکتی ہےتا کہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ سہ فریقی گٹھ جوڑ کی راہ میں رکاوٹ بنا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.