لینے کے دینے پڑگئے

گزشتہ دنوں چار دن اسلام آباد میں گزرے، مختلف افراد سے خوب بات چیت رہی ملکی سیاسی صورت حال زیر بحث رہی کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ملک میں الیکشن نہیں ہوسکتے تمام سیاسی جماعتوں کو مولانا طاہر القادری نے اپنے گرد جمع کرلیا ہے، کسی کا کہنا تھا کہ قادری صاحب بیرونی ایجنڈا لے کر آئے ہیں ملک میں ہنگامے بے چینی پھیلانے کا ٹاسک انہیں ملا ہے، کچھ کا خیال تھا کہ یہ سارا ڈرامہ ہے، ایک صاحب نے بڑے اعتماد سے کہا ابھی چند دن میں قادری اتحاد کا حشر سامنے آجائے گا مختلف سمتوں میں چلنے والے کبھی ایک سمت نہیں چلیں گے ابھی تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، نوکرشاہی کے ایک ذمہ دار جنہیں پیش گوئیاں کرنا آتی ہیں مسکرا کر بولے ابھی تو مدت پوری ہونے میں کافی وقت پڑا ہے، آپ بہت زبردست تماشے دیکھیں گے آپ کا کیا خیال ہے کون بازی مارے گا۔ میں نے پوچھا جناب مجھے اگر ایسا کچھ علم ہوتا تو آپ سے کیوں دریافت کرتا پھر تو میں آپ کو مطلع کرتا ہوں۔ وہ بڑے متکبرانہ انداز میں گویا ہوئے آپ کو اس وقت اسٹیج پر جتنے اداکار نظر آرہے ہیں ان میں سے کوئی بھی نہیں آئے گا۔ اسٹیبلشمنٹ ایک بار ن لیگ کو بھاری مینڈیٹ دے کر تماشا دیکھ چکی ہے۔ اب کے بہت کمزور مخلوط حکومت آئے گی جس میں ہر روز جو تم بیزار ہوگی سب کی سب سیاسی اور مذہبی جماعتیں جو آج ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے دعوے کر رہی ہیں، سب کے غباروں میں ہوا بھری جا رہی ہے۔ ہر کوئی یہ یقین لئے بیٹھا ہے کہ اب کے اسی کا نمبر ہے وہی حکومت کا حقیقی حق دار ہے۔ ایک بزرگ سے تربیلا میں ملاقات ہوئی۔ ہم نے ان سے بھی وطن عزیز کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا اور پوچھا کہ کون سی جماعت اقتدار میں آئے گی۔ انہوں نے کوئی دو سال قبل بھی ہمارے (مہتاب خان، ٹکا خان اور میرے) پوچھنے پر بتایا تھا کہ کراچی میں ہنگامہ آرائی کرنے والی جماعت کا کراچی سے قبضہ ختم ہوجائے گا۔ لوگ منتشر ہوجائیں گے۔ نواز شریف اقتدار میں ہونے کے باوجود رسوا ہون گے، اس بار بھی انہوں نے بڑی مضبوط آواز میں کہا کہ بہت کچھ ہونے والا ہے۔ کوئی بھی جماعت اقتدار میں نہیں آسکے گی ملی جولی حکمرانی ہونی ہے۔ کوئی بڈھی (خاتون) حکمران ہوگی اور عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے۔ وہ خواب ہی دیکھتا رہے گا۔ اللہ خیر کرنے والا ہے ملک کو کچھ نہیں ہوگا۔ لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ امریکہ اپنے مذموم عزائم میں ناکام ہوگا، پاکستان موم کی ناک نہیں جس کا جی چاہے جس طرف موڑ دے۔ اتنی بات کہہ کر انہوں نے ہاتھ اٹھا دیئے۔ رب راکھا۔ یہ ہمیں جانے کا اشارہ تھا۔ یہ ساری گفتگو16 جنوری کی صبح تقریبا گیارہ بجے کی ہے۔ ہم وہاں سے واپس اسلام آباد آگئے۔ مہتاب صاحب کے دفتر میں لاہور سے لمحہ لمحہ کی خبریں آرہی تھیں۔ سترہ جنوری کو مجھے دوپہر کو کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا۔ اس وقت تک بہت کچھ کانوں میں پڑ چکا تھا۔ ہمیں بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ ایک کنٹینر کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے والوں کی سمتیں مختلف ہیں، ان کے مفادات مختلف ہیں۔ طاہر القادری صاحب کا یہ اجتماع حکومت گرانے اور استعفیٰ لینے کے لئے جمع ہوا تھا لیکن وہاں تو معاملہ ہی الٹا ہوگیا۔ ان کے جوشیلے مقرر استعفیٰ لینے کے بجائے استعفیٰ دینے پر اتر آئے۔ قادری صاحب کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے سیاسی اکابرین کی بے چینی، بے یقینی بھی بڑھ رہی ہے۔ ہاں کچھ اکابرین سیاست اقتدار ملنے اور وزیراعظم بننے کے نشے میں حواس باختہ ہوتے جا رہے ہیں جبکہ میاں صاحب ہاتھ سے اقتدار کی رسی چھوٹتی دیکھ کر واویلا پر اتر آئے ہیں۔ خود اپنی حکومت کے اداروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور جو دل چاہ رہا ہے کہتے جا رہے ہیں۔ نتائج سے بے پروا ہو کر میدان میں حشر برپا کر رہے ہیں یوں وہ اپنی رہی سہی ساکھ بھی دائو پر لگا رہے ہیں حالانکہ ایسے وقت میں انہیں بڑی دانش مندی اور ہوشیاری سے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے تھا اس کے برعکس وہ خود اپنے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ انہیں اپنی نا اہلی اب تک ہضم نہیں ہوئی، میاں صاحب کو سوچنا چاہئے حکمرانی اور اقتدار میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا جہاں جسے موقع ملتا ہے اپنی چال چل جاتا ہے۔ میاں صاحب اور ان کے تمام ہی ساتھی آنکھیں بند کر کے دوڑے جا رہے ہیں۔ انہیں جانے کیوں یہ یقین کامل ہے کہ آنے والا وقت بھی ان کا ہے گو کہ ان میں کچھ سمجھ دار لوگ بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ میاں صاحب کو مینڈیٹ دینے والوں کو اگر میاں صاحب مطمئن رکھ سکتے تو وہ نا اہلی کا عذاب نہ سہتے۔ اس کے باوجود میاں صاحب آنکھیں کھولنے کو تیار نہیںوہ یونہی حالت خواب میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے جب ان کی آنکھیں کھلیں تو بہت دیر ہوچکی ہو، ابھی وقت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے حصار سے باہر نکلیں اور مناسب اقدام کریں۔ اپنے آنے والے وقت کی خرابیوں، نقصانات کا حساب کریں اور اپنی موجودہ روش کو چھوڑ کر معقول رویہ اپنائیں تاکہ انہیں بہتر حالات مل سکیں ورنہ اگر وہ یونہی اپنی انا اور ضد پر اڑے رہے تو پھر مشکل ہوگا کہ ان کی جماعت کسی بھی طرح اقتدار حاصل کرسکے۔ ان کو بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک قدم اٹھانا ہوگا۔ آج کی بجائے مستقبل پر نظر رکھنا ہوگی۔ جو ہوچکا سو ہوچکا اب جو ہونے والا ہے یا ہونے جا رہا ہے اس کا تدارک کرنا ہوگا۔ وقت کو سمجھنا ہوگا آئینے کے سامنے کھڑے رہنے سے مشکلات آسان نہیں ہوں گی۔ مشکلوں کو آسان بنانا ہوگا مقابلے میں مدمقابل کی چالاکیوں کو سمجھنا ہوگا ورنہ ناکام ہوں گے اور حریف بازی لے جائیں گے، اللہ تعالیٰ ہمارے سیاست دانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ ایمانداری دیانتداری سے نوازے ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.