کابل حملہ، الزام پھر پاکستان پر

پیشہ ورانہ ضروریات کی وجہ سے اکثر افغانستان بھی گیا ہوں۔ اتفاق کی بات یہ بھی ہے کہ کابل میں رہائش کے لئے ہمیشہ انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل کا انتخاب کیا۔ تاریخی چکن سٹریٹ سے شمال کی جانب چلیں توایک بہت معروف شاہراہ پر اس ہوٹل کی پہاڑکی چوٹی پر بنی عمارت دور سے نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ علاقے کا نام بالاحصار ہے جس کا مطلب ہی بلندی پر واقعہ قلعہ ہوتا ہے۔ اس کے مرکزی دروازے تک پہنچنے کے لئے اونچائی کی طرف جاتی ایک طویل سڑک ہے۔ آج سے تقریباً سات سال قبل جب کابل گیا تو اس سڑک کی ابتداءسے ہوٹل کے Reception تک پہنچنے میں کم از کم چار مرتبہ گاڑی روک کر تلاشی ہوئی۔ہر مرتبہ اپنی شناخت بھی Establishکروانا پڑی۔
اس ہوٹل میں ہفتے کی شب پانچ دہشت گرد گھس آئے۔ اتوار کی صبح تک انہوں نے وہاں کے مہمان اور ملازموں کو نشانہ بنائے رکھا۔ کئی لوگ اپنے کمروں کی کھڑکیوں سے بیڈ شیٹس پھاڑ کر انہیں رسے میں تبدیل کرکے حفاظت کی خاطر بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے شدید زخمی ہوئے۔ بالآخر 43 ہلاکتوں کے بعد افغان پولیس کے خصوصی دستے کئی گھنٹے گزرنے کے بعد ہوٹل کو آزاد کرواپائے۔ طالبان کے ترجمان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔
افغان حکومت اور وہاں کا میڈیا مگر یکسو ہوکر اس واقعے کا ذمہ دار فقط پاکستان کو ٹھہرارہا ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ان کا دعویٰ عالمی میڈیا پر بھی حاوی رہا۔ کئی ایک کو اس حوالے سے ممبئی بھی یاد آگیا ہے۔ وہاں کے تاج محل ہوٹل پر 2008میں ہوئی یلغار۔ تاثر کچھ اس طرح کا دینا مقصود ہے کہ ہوٹلوں پر دہشت گردانہ یلغارکی تکنیک،مہارت یا صلاحیت شاید صرف پاکستان ہی میں دستیاب ہے۔ ہمارے اپنے میڈیا میں البتہ پوری رات تک پھیلے اس قصے کا سرسری ذکر ہوا۔ جو واقعہ پروفیشنل طریقے سے رپورٹ ہی نہ ہوا ہو اس کے بارے میں کوئی معقول بیانیہ ترتیب دینا ممکن نہیں رہتا۔ توجیہہ اس واقعے کی دنیا بھر میں وہی مشہور ہوگی جو افغان اور عالمی میڈیا نے یکسو ہوکر پیش کی ہے۔
پاکستان سے اندھی نفرت کی بنیاد پر چلائی کہانی کے شور میں معقول اور ضروری سوالات اٹھائے ہی نہیں جاسکتے۔ میں طالبان کا ہمدرد نہیں۔ حکومتِ پاکستان کی ہر پالیسی کا دفاع کرنا بھی میرا فرض نہیں ہے۔ کابل کے ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل کے محل وقوع اور اس کے مرکزی دروازے تک پہنچنے کے راستے اور وہاں موجود سکیورٹی کے انتظامات سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہوئے سوال مگر اٹھانے پر مجبور ہوں کہ دہشت گرد مہلک ہتھیاروں کی بھرپور رسد سمیت اس ہوٹل میں کیسے گھس گئے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ افغان کمانڈوز کی وردیوں میں ملبوس دہشت گرد اس ہوٹل کے کچن سے نمودار ہوئے۔
اس ہوٹل میں کھانے کا جو مرکزی ہال ہے اس کی دائیں ہاتھ والی کھڑکیوں سے ایک وسیع باغ دیکھا جا سکتا ہے۔ عصر کے بعد کابلی اپنے خاندان سمیت وہاں گھاس پرقالین بچھائے شام کا کھانا کھاتے نظر آتے ہیں۔ وہاں سے دہشت گردوں کا کچن میں درآنا ممکن ہے میں لیکن ایمانداری سے محسوس کرتا ہوں کہ ہائی سکیورٹی زون میں واقع اس ہوٹل سے ملحقہ باغ سے وہاں کے کچن میں ”اچانک“ درآنا ممکن نہیں۔ 2011 میں بھی اس ہوٹل پر ایک بڑا حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کے بعد اس ہوٹل کے گرد موجود حفاظتی حصار کو یقیناً مزید فول پروف بنادیا گیا ہوگا۔
محض صحافیانہ جبلت کے سہارے میں یہ طے کرنے پر مجبور ہوں کہ دہشت گرد گزشتہ کئی مہینوں سے ہوٹل کے سٹاف میں شامل کچھ لوگوں سے مستقل رابطے میں تھے۔ ان رابطوں کے ذریعے وہاں اسلحہ جمع ہوا۔ دہشت گرد ایک دم نہیں۔ وقفوں سے اس ہوٹل میں کسی نہ کسی صورت جمع ہوئے اور اپنے منصوبے کے لئے طے شدہ وقت پر متحرک ہوگئے۔ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ اس واقع سے کچھ روز قبل دہشت گردوں کا کوئی گروہ پاکستان میں مبینہ طور پر موجود اپنے کسی محفوظ ٹھکانے سے چلااور ہفتے کی شب اس ہوٹل پر دھاوا بول دیا۔ معاملے کی پیشہ ورانہ تفتیش درکار ہے۔ پاکستان کے پاس ایک حوالے سے بڑا قیمتی موقعہ ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر روابط استوار کرنے کے بعد اس واقعے کی تفتیش میں ہمارے اداروں کی نمائندگی پر اصرار کیا جائے۔ افغان حکومت اور اس کے سرپرستوں کو مشترکہ تفتیش کی پیش کش رد کرنے کا کوئی بہانہ میسر نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان، افغانستان اور امریکی حکام کی صاف ذہن کے ساتھ ہوئی پرخلوص پروفیشنل تفتیش ہی حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی ہوگا عذر تراشی ہوگی۔
سال نو کے آغاز کے ساتھ امریکی صدر کے پاکستان کے خلاف بغض بھرے ٹویٹر پیغام کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے ٹرمپ انتظامیہ پاکستان میں Ponitive Strikes کے بے تابی کے ساتھ جواز ڈھونڈ رہی ہے۔ ہفتے کی شب کابل کے ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل پر ہوا حملہ ایسے جواز فراہم کرنے میں کافی مدد گار ہوسکتا ہے۔پاکستانی حکام کو ممکنہ جواز کے ساتھ Nip in the Budوالا Proactiveرویہ اختیار کرنا ہوگا۔ بھرپور سفارتی مہارت کے ساتھ ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو دنیا جان لے گی کہ افغان طالبان پاکستان کے محتاج نہیں۔ وہ ا پنے تئیں ایک طاقت اور قوت ہیں۔ ان کی ”محفوظ پناہ گاہیں“ پاکستان میں نہیں افغان دارالحکومت کے ایک محفوظ ترین سمجھے عالمی شہرت کے حامل ہوٹل میں بھی موجود ہیں۔ طالبان کا انٹیلی جنس نیٹ ورک جانتا تھا کہ ہفتے کے روز اس ہوٹل میں ایک ITکانفرنس ہورہی تھی۔ اس میں شمولیت کے لئے افغانوں کے علاوہ کئی غیر ملکی ماہرین بھی وہاں موجود تھے۔ دہشت گردوں نے اس دن حملے کا انتخاب ”عالمی خبر“ بنانے کے لئے کیا اور وہ ایسا کرنے میں مکمل طورپر کامیاب رہے۔
مکمل طورپر Solo ہوئے اس گروہ کی وجہ سے مشتعل ہوکر پاکستان میں کوئی Strike ہوئی تو طالبان اپنے اہداف کے حوالے سے One Up ہوجائیں گے۔ پاکستان،افغانستان اور امریکہ تین ریاستیں ہیں۔ انہیں Non State Actorsکے بچھائے جال سے ہر صورت بچنے کی کوئی صورت نکالنا ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.