عوام کا نوحہ اور منوبھائی

شیخ رشید اور عمران خان نے لاہور میں پارلیمنٹ پر لعنت کرتےہوئے استعفے دینے کا اعلان کیاتو ہم سمجھے دل کا سارا زہر نکل گیا ہوگا۔ کیونکہ شکیب جلالی نے کہاتھاکہ
جو دل کا زہر تھا کاغذپہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
مگر عمران نے اگلے روز پھر کہاکہ ابھی انہوں نے ہتھ ہولا رکھا ہے وگرنہ ان کے مخالفین کا جرم اس سے کہیں بڑاہے۔ سیاسی حریفوں کوگالم گلوچ کرنے میں شیخ رشید پی ایچ ڈی ہولڈر سمجھتے جاتے ہیں۔کبھی یہ نون لیگ میں بھی اپنی یہی کلاکاری دکھایا کرتے تھے جس کا مظاہرہ آجکل 8سیاسی جماعتوں کی طرف سے سجائے گئے مشترکہ تھیٹر پر کیا گیاہے۔ موصوف کبھی میاں نوازشریف کے زیر سایہ محترمہ بے نظیربھٹو کے لئے آوازے کسا کرتے تھے۔ برقی میڈیا ان کی زبان ِ تیغ کا گواہ ہے جس کے ساتھ یہ عمران خان کو ایک نامراد سیاستدان کہاکرتے تھے ۔عمران خان بھی ان کی زبان ِ بے لگام سے عاجز تھے ۔شیخ رشید کے بارے میں کپتان کا یہ جملہ کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ’’ اللہ مجھے شیخ رشید جیسا کامیاب سیاستدان کبھی نہ بنائے‘‘۔عمران نے یہ بھی کہاتھا کہ’’ شیخ رشید کو میں اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں‘‘۔ پھر چشم ِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ عمران نے شیخ رشید کو اپنا وزیر اعظم نامزد کیایہ الگ بات کہ وہ اپنے امیدوار کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے بنی گالہ سے باہر نہ نکلے۔کچھ بھی ہو شیخ رشید اپنی زبانہ کَش کی بدولت اپنا اسٹارڈم قائم رکھے ہوئے ہیں۔جب یہ نون لیگ کی اسٹارکاسٹ میں شامل تھے تو شیخ رشیدکی حیثیت اس زمانے میں میاں صاحب کے لئے Blue-eyed boy جیسی تھی۔ ہمیں وہ تاریخی خطاب اچھی طرح یاد ہے جس میں شیخ رشید اورنوازشریف یکے بعد دیگرے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا الزام ذوالفقار علی بھٹو پر عائد کررہے ہیں۔لیکن آج نوازشریف مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب اسٹیبلشمنٹ کے اس فیصلے کو قرار دیتے ہیں جس میں بنگالی عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیاگیاتھا۔ایک نئے شیخ مجیب الرحمان کی بات اسی پس منظر میں کی جارہی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ کبھی آپ اسٹیبلشمنٹ کی سویلین ٹیم بن کر عوام کے اصل نمائندوں کو غدار قرار د یتے رہے اور کبھی آپ بذات خود جمہوریت کے رابن ہڈ بن جاتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہاہے کہ عمران اور شیخ رشید نے پارلیمنٹ کو گالی دی ہے دونوں کو استحقاق کمیٹی کے سامنے بلایاجائے نہ آئیں تو گرفتار کرکے لایاجائے۔ خواجہ آصف پارلیمنٹ کو گالی دینے والوں کو گرفتار کروانا چاہتے ہیں ماضی میں یہ پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاالحق کے نظریاتی حامی رہے اور ان کے والد مرحوم خواجہ صفدر پارلیمنٹ کو پامال کرنے کے بعد اس مجلس شوریٰ کے چیئر مین مقرر کئے گئے جس کا مقصد ایک بدترین ڈکٹیٹر کو اخلاقی جواز مہیاکرناتھا۔ نوازشریف اور انکی ٹیم آج سہر وردی سے لے کر بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے لے کر یوسف رضا گیلانی سمیت ان تمام وزرائے اعظم کی بات کررہی ہے جو عوام کا ووٹ لے کر اقتدار میں آئے لیکن وہ اپنے عہدوں سے بے دخل ہوئے ،بعض قتل کردئیے گئے اور کچھ کرپشن کے الزامات کے باعث نااہل قرارپائے۔ذاتی طور پرشہبازاور نوازشریف کو ہیوگو شاویز اورنیلسن مینڈیلاہرگز نہیں سمجھتا لیکن میں انہیں بھی سقراط نہیں جانتا جوصرف سیاستدانوں پر تنقید کرکے اپنے پیشہ ورانہ فرائض سے مکتی پاجاتے ہیں۔اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہماری سیاسی ایلیٹ کے نوے فیصدکرداراسٹیبلشمنٹ کی ٹکسال سے گھڑے گئے تھے ۔پروڈکٹ کے نقائص اور خامیوں کے ذمہ دار مینو فیکچرر ہی ہوا کرتے ہیں۔نوازشریف اور شہبازشریف پر سنگ زنی کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی تنقید ان کے تخلیق کاروں پر بھی کی جانی چاہیے تاکہ وہ فیکٹری غیر فعال ہوسکے جہاں یہ مال تیار ہوتاہے غالب کسی ایسی صورت حال کے لئے کہا تھاکہ ’’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ ۔کیاپری پیکروں کو ادراک نہیں تھا کہ وہ وسطی لاہور اور کھابوں کے گڑھ گوالمنڈی سے تعلق رکھنے والے شکم سیری کے شوقین کاروباری گھرانے کے فرزندان کواقتدار کے سنگھاسن پر جلوہ افروز کرکے کیا قومی خدمات سرانجام دے رہے ہیں؟ ؟اسٹیبلشمنٹ کے متعارف کرائے چاند چہروں کی 36سالہ سیاست کو انہی کی زبان میں عنوان دیاجائے تووہ یہ ہے کہ’’ آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے گئے ہیں‘‘۔غالب نے ہی کہاتھاکہ۔۔جہاں ساقی ہوتوباطل ہے دعویٰ پارسائی کا۔۔علامہ اقبالؒ نے تو ساقی سے ایک ایسی شرط منسوب کردی تھی جو اس کے کریکٹر سے بھی متصادم ہے ۔۔نشہ پلاکے گرانا تو سب کو آتاہے۔۔مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی!
قارئین! عوامی دکھوں کا نوحہ جاری تھاکہ سعید قاضی نے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ منوبھائی چل بسے ہیں۔یوں لگاکہ جیسے مجھے میرے والد کے مرنے کی اطلاع دوبارہ دی گئی ہو۔منوبھائی صحافت کارومانس تھے ،ان سے اس پیشے کا بھرم تھا۔منوبھائی کا نام پاکستان کی صحافت کے ماتھے پر جھومر کی طرح 62سال تک چمکتارہا۔اب یہ نام سچائی ،ایمانداری اورمعیار کی روایت بن کر تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔نجانے میں کب سے منوبھائی کی محبت میں گرفتار ہوں۔ دھندلاسایاد ہے میرے والد غلام سرورمیرگھر کے صحن میں منوبھائی کا کالم پڑھا کرتے تھے۔اکثر ایسا ہوتاتھا کہ وہ ایک بلند قہقہہ لگاتے ہوئے میری والدہ مرحومہ ثریااختر کو آواز دیتے’’ثریا! ایہہ ویکھومنوبھائی نے کی لکھیااے‘‘(یہ دیکھومنوبھائی نے کیالکھاہے)گریبان پڑھتے ہوئے اکثر والد صاحب کی آنکھیں بھیگ بھی جایاکرتی تھیں۔ یہ منوبھائی کی صلاحیت تھی وہ ہنستے ہوئے کو رلانے اور روتے ہوئے کو ہنسانے کی تکنیک کو بروئے کار لاتے تھے۔ منوبھائی ایک بڑے ادیب ،شاعر ،ڈرامہ نگار اور ورسٹائل کالم نگار تھے۔استاد دامن اور منوبھائی ایک ریڈیو شو میں شریک تھے ۔استاد دامن نے عالمی معیار کی شاعری اور ادب کے گرد حاشیہ کھینچتے ہوئے کہاتھاکہ سادگی ،انفرادیت ،سنجیدگی اورمزاح تحریر کو شہکار بنانے کے اہم بنیادی عناصر ہیں۔منوبھائی کی تحریروں میں یہ سب تھا ۔ منوبھائی نے ایک طویل عمر پائی ان کا صحافتی سفر بھی طویل تھا ۔انہوں نے کیریئر میں اپنے کئی ساتھیوں اور نابغہ روزگاروں کی وفات پر کالم لکھے ۔منوبھائی کو ماتمی کالم اسپیشلسٹ بھی کہاجاتاتھا۔آج ان کے لئے یہ سطور لکھتے ہوئے میری آنکھوں میں جہاں آنسو ہیں وہاں دل ودماغ میں انکی یادیںاورباتیں گدگدا بھی رہی ہیں۔ منوبھائی بلاکے ذہین تھے ان کا لکھا جملہ اور کہی بات قول زریں بن جایاکرتاتھا۔ منوبھائی کا اپنے بارے میں خیال تھا کہ ان کے لہجے میں پائی جانے والی Stammering ان کے خیالات میں ایک رکاوٹ تھی ۔لیکن ہم نے دیکھا ہے منوبھائی کا جملہ اس لکنت کے ساتھ کسی ڈرون حملے سے کم نہیں ہوتاتھا۔ منوبھائی ایک مرتبہ دلدار پرویز بھٹی کے ٹی وی پروگرام ’’ٹاکرا‘‘ میں شریک تھے۔دلدار بھٹی نے شرارت سے پوچھا۔۔ منوبھائی! آپ کی بیوی آپ کو کس نام سے پکارتی ہے؟منوبھائی نے جھینپے بغیر کہاوہ مجھے دلدار کہتی ہے۔ منوبھائی گزشتہ ڈیڑھ پونے دوسال میں جیوکے پروگرام’’خبرناک ‘‘ میں تین مرتبہ تشریف لائے۔منوبھائی کو جب ہم نے خبرناک میں شرکت کی دعوت دی تو بعض دوستوں نے مشورہ دیاکہ ان کے لہجے میں لکنت بہت بڑھ گئی ہے لہذا تجربے سے پرہیز کیاجائے ۔ خیال یہ بھی تھامنوبھائی خبرناک کی جگت الیون سے مقابلہ کیسے کرپائیںگے۔یقین جانیے مزاح اور جگت بازی کے اس میچ میں منوبھائی ہی میسی ،رونالڈو اور پلے دکھائی دئیے ۔منوبھائی سے میری نیاز مندی لگ بھگ 30سال جاری رہی ۔ان سے آخری ملاقات ڈیفنس اسپتال میں ہوئی جہاں میں برادرم سہیل احمد کے ساتھ ان کی تیمار داری کرنے گیا تھا۔ منوبھائی نے اس دن ہی ہمیں اپنی موت کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ دے دی تھی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.