پارلیمنٹ ، پیمرا ، پی ٹی اے (حیدر نقوی)

اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے لاہور میں ہونے والا مظاہرہ بظاہر حکومت اور نواز شریف کے خلاف تھا مگر ماضی میں ہونے والے دوسرے تمام احتجاجوں کی طرح اس احتجاج کابھی مقصد ملک کے ایسے اداروں کو کمزور کرنا یا اُن کی عزت پر ضرب لگانا تھا جو کہ ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم عمران خان کی تحریک کے پیچھے چھپے ہوئے حقیقی عوامل کو جانے اور پھر خود فیصلہ کرے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔ پہلے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور پھر نواز شریف کی کرپشن کو بہانہ بناکر اس قوم کو ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جاچکا ہے جس کے پیچھے چلتے ہوئے یہ ملک ایک ایسی تباہی کی طرف جارہا ہے جس کا شاید ہمیں اُس وقت پتہ چلے جب ہم راستے سے مکمل طور پر بھٹک چکے ہوں۔ گزشتہ تین چار سال سے مسلسل ہونے والی ان احتجاجی تحریکوں کے پیچھے دراصل مقصد اس ملک کے اُن اداروں کو مکمل طور پر ناقابل اعتبار بنانا ہے جن کا براہ راست عوام سے تعلق ہے اور نتیجتاً عوام پھر اُن کے خلاف شور بلند کریں اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین دباؤ میں آئیں جس سے نہ صرف اُن کی کارکردگی متاثر ہو بلکہ جان بھی خطرے میں پڑے۔ یہ گھناؤنا کھیل 2013 کے انتخابات کے کچھ عرصے بعد ہی شروع کردیا گیا جس دوران وزیر اعظم نواز شریف اپنی نئی ٹیمیں تشکیل دے رہے تھے ۔ دنیا کے معروف سماجی کارکن بل گیٹس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر کسی بھی ریاست کو افراتفری کا شکار کرنا ہو تو عوام پر سے اُس کے اداروں کا اعتبار ختم کردو ریاست خود بخود زوال کی طرف جانا شروع ہوجائیگی۔ اس پر عمل کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران کنٹینروں پر کھڑے ہوکر بڑے بڑے پارساؤں نے قومی اداروں کے سربراہوں کو مغلظات بکیں اور اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے کے مصداق اُن کے خلاف مسلسل جھوٹے پروپیگنڈے کیے گئےاور اوردھمکیاں دی گئیں۔ حال ہی میں پاکستان کے مقتدر ترین ایوان قومی اسمبلی کو جس کے ماتھے پر قائد کی تصویر چسپاں ہے بدترین الفاظ میں یاد کیا گیا اور اُس پر شرمندہ ہونے کے بجائےفخر کیا گیا جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
دراصل جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا یہ سارا کھیل پاکستان کو تین طرف سے نقصان پہنچانے کے لیے کھیلا جارہا ہے پہلا حکومت پر سے عوام کا مکمل اعتبار ختم کردیا جائےدوسرا میڈیا کو یا تو ختم کردیا جائے یا وہاں تک لے جایا جائے کہ کوئی بھی سر اُٹھانے کے قابل نہ رہے اور تیسرا میڈیا ہاؤسز کی شہ رگ یعنی اشتہارات کو کاٹ دیا جائے جس سے ملک کو شدید معاشی دھچکا لگے اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائیں حکومت کے خلاف جو کچھ پہلے دن سے ہورہا ہے وہ تو کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں مگر سب سے زیادہ تکلیف دراصل سچ بولنے والے میڈیاہاؤسز سے ہے اور ہر روز اُن کے خلاف ایک جھوٹا الزام لگاکر اُن کی عوامی ساکھ کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے میڈیا ہاؤسز کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے کا نام پیمرا ہے گزشتہ دو تین سال میں جس طرح سے پیمرا کی تضحیک کی گئی وہ زبان زد عام ہے اور پیمرا پر الزامات لگانےوالے عمران خان کی معلومات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کنٹینر پر کھڑےہوکر جب انھوں نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو للکارا تو کہا کہ اخبارات کو کنٹرول کرنے والاادارہ پیمرا ۔ اس چھوٹی سی بات سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انھیں کتنا سچ پتا ہوتاہے۔ دراصل نشانہ پیمرا یا ابصار عالم نہیں بلکہ وہ ٹی وی چینلز تھے جو سچ بولنے سےنہیں ڈرتے چاہے کوئی بھی قیمت چکاناپڑے اور پیمرا کے ایک مستحکم ادارہ رہنے کی صورت میں کسی بھی ٹی وی چینل پر چلنے والی جھوٹی خبر فوری طور پر نہ صرف رکوائی جاسکتی تھی بلکہ قانون کے مطابق سزا کی حقدار بھی ہوتی۔ لہذا جھوٹ بولنے اور اس کو عوام تک مسلسل پہنچانے کے لیے پیمرا کے نظام کو کمزور کرنابہت ضروری تھا جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کچھ سیاسی جماعتوں اور ٹی وی چینلز نے بھرپور کردار ادا کیا۔ اسی عمل کادوسرا حصہ یہ تھا کہ اب نیوز ٹی وی چینلز پر اس طرح کی زبان استعمال کی جائےکہ عوام یا تو انھیں دیکھناچھوڑدیںیا اتنی مذمت کریں کہ سب اُس کے خلاف ہوجائیں اور پیمرا کےنظام کو زک پہنچانے کے بعد آج کل اس پر بڑی خوبصورتی سے عمل کیا جارہا ہے اور وہ پیمرا جو کل تک کسی بھی چینل کے خلاف کارروائی کرنے سے نہیں گھبراتا تھا اب کہیں بھی نظر نہیں آرہا ۔ اسی سازش کی تیسری کڑی ہے ٹی وی چینلز کو ملنے والے اشتہارات کو یا تو نقصان پہنچایا جائے یا پھر ختم ہی کروادیا جائے اور بغیر اشتہارات کے ٹی وی چینل قارون بھی نہیں چلاسکتا یہ کام کیا جارہا ہے پی ٹی اے جیسے کامیاب ترین ادارے کو غیر فعال کرنے کی سازش سے کیونکہ اگر پی ٹی اے غیر فعال ہوجاتا ہے تو اس کا براہ راست اثر اُن موبائل نیٹ ورکس پر پڑے گا جو پی ٹی اے کے ذریعے ریگو لیٹ ہوتے ہیں جب اُن کا کاروبار متاثر ہوگا تو اُن کا اشتہارات کا بجٹ بھی کم ہوجائےگا اور تقریباً تمام ہی ٹی وی چینلز موبائل نیٹ ورکس کے اشتہارات کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں کیونکہ دوسرے کاروباری اداروں کا بجٹ موبائل نیٹ ورکس کے مقابلے میں نصف سےبھی کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاجو آج کل بہت بُراکردار ادا کررہا ہے۔ جب پی ٹی اے ہی فعال نہیں رہے گا تو کس طرح اس طوفان بدتمیزی کے آگےبند باندھا جاسکتا ہے۔ کچھ سازشیوں نے آج کل پی ٹی اے کےخلاف بھی شدید مہم چلائی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی اے بھی پیمرا کی طرح غیر فعال ہوجائےتاکہ اُن کے مذموم عزائم پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں ۔ ایک نوٹیفکیشن کے مطابق وزیر اعظم نے پی ٹی اے کو کسی بھی طرح کے ادار ہ جاتی فیصلے کرنے سے روک دیا ہے جو انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ جس تیزی سے سوشل میڈیا پر ملک کے خلاف اور مذہب کے خلاف مہمات چل رہی ہیں اگر پی ٹی اے کو ان کو روکنے کا فوری اختیار نہیں دیا گیا تو جلد ہی پی ٹی اے بھی ناکام اداروں کی صف میں آکر کھڑا ہوجائے گا اور موبائل نیٹ ورکس اپنا کاروبار یا تو سمیٹ لیں گے یا انتہائی پریشانی میں جاری رکھیں گے جس کابراہ راست نقصان میڈیا کوہوگا اور یہ ہی اصل ہدف ہے پاکستان کے دشمنوں کا۔ 2013 میں بھی پی ٹی اے کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہوا تھا تاہم اُس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی اے کے عہدیداروں کو اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ خدا کے لیے پیمرا اور پی ٹی اے جیسے انتہائی اہم اداروں کو بچائیں ان کابراہ راست تعلق ہمارے مستقبل اور نوجوانوں کی ترقی سے ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.