اور اب تیسری شادی ۔۔۔

آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ جب کسی بھی شخص کی شادی اس کا ذاتی معاملہ ہوتی ہے تو مجھے خان صاحب کی تیسری مبینہ شادی پر لکھنے اور تبصرہ کرنے کا کیا حق ہے تو میرے پاس اس کا جواب موجود ہے۔ کسی بھی سیاستدان کی ذاتی زندگی ہر معاشرے میں اہم سمجھی جاتی ہے بلکہ صرف سیاستدان ہی کیوں، ہر جج ، ہر جرنیل اور ہر بیوروکریٹ سمیت ہر اس شخص کی ذاتی زندگی اہم ہے جو فیصلہ ساز ہو اورجو ذاتی زندگی، قومی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتی ہو۔ ہم اپنی ذاتی اور معاشرتی اقدار میں یورپ سے زیادہ مہذب اور امریکا سے زیادہ ذاتی زندگیوں کے محافظ نہیں مگر وہاں بھی بل کلنٹن کا معاشقہ سنجیدہ معاملہ بن جاتا ہے ۔ ایک وجہ ہے کہ بہت سارے عہدوں کے لئے ایسے مرد یا عورت کو ناموزوں قرار دیا جاتا ہے جس کی بیوی یا شوہر غیر ملکی ہو۔ ایک شخص جو وزیراعظم بننے کا خواہاں ہو ، ایک صوبائی حکومت ،قومی اسمبلی میں ایک پارلیمانی پارٹی اور سب سے بڑے صوبے میں اپوزیشن اس کے اشاروں پر چل رہی ہو تو اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے چاہے وہ ذاتی ہی کیوں نہ ہوں۔ کو ن کہہ سکتا ہے کہ کس وقت معاملات ذاتی سے بڑھ کے سیاسی اور قومی ہوجائیں اور کانوں کان خبر نہ ہو۔ مجھے یہاں تک کہنا ہے کہ اگر کسی کی اولادبھی پاکستان کی شہریت نہیں رکھتی تو اسے بھی فیصلہ سازی کی اعلیٰ ترین پوسٹوں کے لئے نااہل سمجھا جانا چاہئے ، دلیل یہ ہے کہ جب میرے بڑھاپے کا سہارا میرے بچے جس ملک میں ا پنا مستقبل نہیں رکھیں گے تو مجھے بھی اس ملک کے مستقبل کی بہتری کی کوئی چنداں فکر نہیں ہو گی۔

عمران خان صاحب اپنی شادی کو ٹاک آ ف دی ٹاون خود بناتے ہیں۔ میں جمائما خان سے ان کی شادی کو بھی سیکورٹی رسک سمجھتا تھا کہ ان کے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی ہی نہیں بلکہ نظریاتی مفادات بھی الگ الگ ہوسکتے ہیں مگر دوسری طرف جب ان کا نکاح محترمہ ریحام خان سے ہوتا ہے تو وہ اسے بھی چھپاتے رہے حالانکہ نکاح کا مطلب ہی رشتہ ازدواج کا اعلان کرنا ہے۔ جب کوئی شخص کسی جائز اور درست رشتے کو بھی چھپاتا ہے تواس سے بدگمانیاں جنم لیتی ہیں۔ شیریں مزاری سمیت ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ شادی خان صاحب کا ذاتی مسئلہ ہے مگر جب وہ ایک سیاسی تحریک کے پلیٹ فارم سے کھڑے ہو کر شادی کا اعلان کرتے ہیں، جب ان کے خاندانی ذرائع یا ذاتی ترجمان کی بجائے سیاسی ذرائع اور پارٹی ترجمان ان کی شادیوں، طلاقوں ہی نہیں بلکہ رشتے بھیجے جانے تک کی تصدیق ، تردیداوروضاحت کرتے ہیں تو ہم جیسے قلم کاروں کو بھی معاملے میں گھسنے کا جواز مل جاتا ہے۔ عمران خان صاحب کی تیسری شادی توپہلی دونوں شادیوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ سیاسی ہے کہ وہ جس خاتون سے شادی کرچکے یاکرنے جا رہے ہیں وہ ان کی پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر کی اہلیہ تھیں اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق عمران خان ان سے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے ہی ملے تھے۔

سوال جائز ہے کہ کیا صحافت اور صحافیوں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ شادیوں کی خبریں دیں اور مجھے جواب میں خبر کی تعریف کی طرف جانا ہے اور خبر کی ایک مستند ترین تعریف کے مطابق ہر وہ بات اور واقعہ خبر ہے جس میں عوام دلچسپی لیں۔اگر عمران خان کی شادی میں ان سے محبت اور نفرت کرنے والے دونوں ہی گہری دلچسپی لیتے ہیں تو جو اسے خبر نہ سمجھے وہ صحافی نہیں ہو سکتا۔ ان کی شادی خبر کی ہر تعریف اور ہر ضرورت پر پوری اترتی ہے، ہاں، اگر وہ اسے ذاتی معاملہ ہی رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اسے سیاسی دوستوں سے دور رکھیں۔ میں نے بہت سارے سیاسی رہنماوں کے پیاروں کی ایسی شادیاں ہوتی ہوئی دیکھی ہیں جنہیں خاندان تک محدود رکھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تلاش بسیار کے باوجود ہم صحافیوں کو ان شادیوں کی تصاویر اور فوٹیج دستیاب نہیں ہوتیں۔ عمران خان کی شادی پر ان کے ساتھی رہنما جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں مشورے دیتے ہیں تو پھر یہ معاملہ ذاتی نہیں رہ جاتا۔ ابھی شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ عمران خان ایک مرتبہ پھر جمائما خان سے شادی کر لیں اور جمائما خان نے بھی شرمیلے ایمسینجر کے ساتھ ایک ٹوئیٹ کی تھی یعنی وہ بھی اپنا ذاتی معاملہ پبلک میں لے آئی تھیں ، افسوس،اگر ان کے دل میں کوئی خواہش موجود بھی تھی تو وہ خواہش ہی رہ گئی، خان صاحب اب آگے بڑھ چکے ہیں۔

عمران خان کے وزیراعظم بننے کے سوال پر ہمارے روزنامہ پاکستان کے معتبر ستارہ شناس شیخ طارق اقبال کہتے ہیں کہ وہ سو فیصدپر یقین ہیں کہ عمران خان وزیراعظم نہیں بنیں گے، وہ ستاروں کی کن چالوں کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں اس پر میرا خیال ہے کہ ستاروں کے علم کو بنیاد بنا کے ایک الگ ،مکمل کالم لکھا جانا چاہئے۔خان صاحب کی عمر اس وقت چھیاسٹھ برس ہے اور اگروہ جولائی کے انتخابات میں وزیراعظم نہیں بنتے جس کے واضح سیاسی امکانات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں تو پھر ان کے پاس شیروانی پہننے کا یہی آزمودہ طریقہ باقی بچا تھا۔ ہمارے معاشرے میں مرد دو ہی موقعوں پر شیروانی پہنتے ہیں ایک جب ان کی شادی ہو رہی ہو اور دوسرے جب انہیں کوئی حلف اٹھانے کا موقع ملے۔ میں نے ایک ہی روز میں کوٹ مومن میں نواز شریف اور چکوال میں عمران خان کے جلسوں کی فوٹیج دیکھی ہے اور مجھے عوام کے موڈ کا اندازہ ہو گیا ہے حالانکہ نواز شریف نے جس علاقے میں جلسہ کیا وہاں پر پیری مریدی کرنے والے اپنے پیروکاروں کے ذریعے نواز شریف پر حملہ آور ہو چکے مگر کوٹ مومن نے پیر سیالوی کو جواب دے دیاہے۔ اللہ تعالیٰ عمران خان صاحب کو صحت اور زندگی دے کہ ان کے پاس شیروانی پہننے کا اگلاموقع اکہتر ،بہتر برس کی عمر میں دستیاب ہو گااور وہ بھی سو فیصد رسک پر ہے۔ مجھے کسی نے کہا کہ نواز شریف نے پیروں کو ناراض کر لیا جبکہ عمران خان نے پیروں کو راضی کر لیا، میرا جواب تھا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ پیران کرام ایک مرید کی اس حرکت پر خوش ہوئے ہیں یا ناراض ۔ میں نے اس خاتون نجومی کی باتیں بھی سنی ہیں جو ایک مقبول ٹی وی چینل پر بیٹھی عمران خان کے وزیراعظم بننے کے سوال پر جواب میں نو کمنٹس کہہ رہی تھیں کہ ان کے ستارے اس کی نشاندہی نہیں کر رہے تھے یا وہ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ بریگیڈ کے حملے سے بچنا چاہ رہی تھیں مگر وہ اس خبر کے بریک ہونے سے پہلے ہی خان صاحب کے دولہا راجا بننے بارے سو فیصد کنفرم تھیں۔ مجھے تو اس موقعے پر بے چاری قندیل بلوچ کو بھی یاد کرنا ہے کہ اس نے بھی عمران خان کی اسی علاقے، اسی خاندان اور اسی خاتون سے تعلق بارے پیشین گوئی اپنے قتل سے پہلے کر دی تھی۔ اللہ مرحومہ کو بخشے کہ وہ قتل نہ ہوجاتی تو آج وہ بھی سکہ بند پیر نی ہوتی۔

کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی یہ شادی کامیاب رہے گی کہ یکم جنوری کو وہ شادی کروانے کے بعدجیسے ہی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے تو انہیں ایسے مقدمات میں بھی ضمانت مل گئی جن میں پہلے کبھی کسی اشتہاری کو نہیں ملی گویا یہ خاتون ان کے لئے خوش قسمت ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہی وہ خاتون ہوسکتی ہیں جن کے علم نجوم پر بھروسہ کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے بھرے زمانے کے سامنے کہہ دیا کہ سب نجومی کہتے ہیں کہ اگلی حکومت پی ٹی آئی کی ہو گی اور اس کا جواب طلال چودھری نے اپنے مشہور، روایتی انداز میں دیا کہ وزیراعظم امپائر ، نجومی یا حکیم نہیں بلکہ عوام اپنے ووٹ سے بناتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے حکیم کا لفظ کس مخبری پر شامل کیا تھا مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہماری بہت ساری اچھی معاشرتی روایات اب مڈل کلاس تک محدود ہو کے رہ گئی ہیں۔ ہمارے بہت زیادہ امیر اور بہت زیادہ غریب طبقات ان کی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کرتے لہذا جب میں کسی غریب کو ایمانداری کرتے یا کسی امیر کو اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے دیکھتا ہوں تو اس پر خوشی محسوس کرتا ہوں۔ جب میں نے پچاس سال کے لگ بھگ عمر والی خاتون کے جوان بیٹے کو اپنی ماں کو کو اپنے باپ سے طلاق لینے کے بعد شادی کی خواہش پرتردیدیں کرتے دیکھا تھا کہ اس کی بہن کو اسی معاملے پر اس سے پہلے طلاق ہو چکی تھی تو مجھے واقعی دکھ اور افسوس ہوا ۔ اللہ تعالی ان تمام لوگوں کی عزتیں ان تمام لوگوں کے ہاتھوں محفوظ رکھے جنہیں وہ بڑے مان کے ساتھ عزت دیتے ہیں، ان کے لئے گھروں کے دروازے کھولتے ہیں کہ بے شک یہ واقعی بڑی ذمہ داری والا کام ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.