ستارے گردش میں ہیں

یہ کتنا عجیب اتفاق تھا کہ نئے سال کے پہلے دن کی صبح میں مٹھی میں تھا ۔ بازار کی چند کتابوں کی دکانوں میں ’ مفید عالم جنتری‘ کوخاص طور پر آویزاں کیاگیا تھا ۔ میں نے فوراً ایک کاپی خریدلی۔ اس لئے نہیں کہ مجھے2018کے بارے میں پیش گوئیاں جاننے کی خواہش تھی ۔ دراصل اس مفید عالم جنتری، کی ایک کہانی ہے۔ سالوں پہلے جب ایک بار میں مٹھی میں تھا تب میں نے ایک دکان میں یہ جنتری دیکھی ۔ گوسال کے کئی مہینے گزر چکے تھے تب بھی میں نے وہ لے لی ۔ اس لئے کہ وہ اردو میں تھی اور جالندھر میں شائع ہوئی تھی اور مٹھی میں بک رہی تھی ۔ واپسی کے راستے میں اس نے ہمارا ساتھ دیا ۔ مزے مزے کی باتیں میں پڑھتا رہا اور کوسٹر کے ساتھی لطف لیتے رہے ۔ اس بار نیا سال ہم نے تھر کے شہر اسلام کوٹ میں منایا نہ جانے کتنے عرصے بعد میں نئے سال کی کسی تقریب میں شریک ہوا ۔ نوجوانی میں اور اس کے بعد بھی نئے سال سے بے ساختہ بغل گیر ہونے کا سلسلہ چلتا رہا ۔ وہ کراچی بھی یاد ہے جب بڑے ہوٹلوں میں رقص و سرور کی محفلیں برپا ہوتی تھیں۔ اب تودنیا اتنی بدل چکی ہے۔ اور یہی وقت کا استبداد بھی ہے اور احسان بھی ۔ تقدیریں بھی بدلتی ہیں اور حالات بھی ۔ جبھی تو ہر نئے سال کی آمد پر ستارہ شناس اپنی دوکان سجاتے ہیں اورہمیں بتاتے ہیں کہ نیا سال کیسا ہوگا۔ میں کیونکہ سول سوسائٹی کے کئی افراد کے ہمراہ تھر میں تھا جہاں اینگرووالے کہ جو حکومت سندھ کی شراکت میں تھرکے کوئلے کی کان کھود رہے ہیں ہمارے میزبان تھے اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ ٹیلی وژن پر کس نجومی نے کیا گل کھلائے۔ مشکل یہ ہے کہ نجومی بھی ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ پھر انہیں بھی سیاست دانوں کی طرح اپنی بات کہنے میں احتیاط برتنا ہوتی ہوگی ۔ ہم اپنی ذاتی زندگی میں جب کسی دست شناس یا جوتشی سے رجوع کرتے ہیں تو زیادہ زور اچھی اچھی باتوں پر رہتا ہے۔ میڈیا کے برعکس،نجومی زیادہ تر بس اچھی باتوں کی خبر رکھتے ہیں۔ کچھ دیر کے لئے آپ کا دل بہل جاتا ہے۔
ان باتوں میں میں، مفید عالم جنتری، سے دور چلا گیا ۔ اس کا کچھ ذکر کرناچاہتا ہوں۔ ایک حیرانی کا میں نے ذکر کیا کہ یہ اردو میں اور جالندھر میں شائع ہوتی ہے ۔ بظاہر پاکستان میں اس کا چربہ چھاپا جاتا ہے کیونکہ یہ200صفحات سے زیادہ کا ایک ضخیم شمارہ ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ یہ جنتری 140سال سے زیادہ عرصے سے شائع ہورہی ہے۔ اس کے پبلشر ہیں ’’ پنڈت دیوی دیال مشہور عالم جیوتشی اینڈ سنز لاہور والے‘‘۔ اردو میں ہوتے ہوئے بھی یہ بیشتر اتنی ٹھیٹ ہندی میں ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ مٹھی میں اسلئے فروخت ہوتی ہے کہ یہاں ہندوبرادری کے افراد کثیر تعداد میں آباد ہیں اور ان کی زندگی میں جوتش کو خاصا دخل ہے۔ طرح طرح کی معلومات اس میں شامل ہیں اور ایک دوجگہ خالص اردو کے مضامین بھی ہیں۔ میرے لئے تو یہ جنتری محض کچھ دیر کا مشغلہ رہی ۔ خود اپنی قسمت کے بارے میں کوئی اندازہ نہ لگا پایا کہ کونسا ستارہ کس گھر میں کیا کررہا ہے۔ بس یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے دن بھی آئیں گے اور برے دن بھی آئیں گے ۔ حادثے بھی ہونگے اور سانحے بھی دل دکھائیں گے۔ ویسے تو ذاتی ذندگی کا اپنا ایک الگ دائرہ ہوتا ہے۔ بڑی حد تک اسے اجتماعی ، قومی اور بین الاقوامی حالات سے بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن جو کچھ گھر کے باہر ہورہا ہو اس سے اپنے آپ کو بالکل محفوظ نہیں رکھا جاسکتا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ حکمراں اور قومی ادارے اور کبھی کبھی عالمی قوتیں بھی ہماری تقدیر سے کھیلتی ہیں ۔ ہمارے گھر کے معاملات میں دخل دیتی ہیں۔ ہمیں پریشان کرسکتی ہیں۔ اور یہ جو نیا سال شروع ہوا ہے اس نے تو ابھی سے یہ پیغام سنادیا کہ سنبھل جائو۔ ستارے اپنی چال تبدیل کررہے ہیں۔ 2018کے بارے میں یہ تو ہم جانتے ہیں کہ یہ انتخابات کا سال ہے۔ سیاسی جذبات کے ابھار کا موسم آرہا ہے۔ احتجاج اور افراتفری کا بازار ابھی سے گرم ہے۔ کئی باتیں ایسی ہوئی ہیں کہ جن کے اثرات آنے والے دنوں میں ضرور ظاہر ہونگے اور یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ2018کا آغاز جس گھن گرج کے ساتھ ہوا ہے اس کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ یعنی ستارے اپنی چال چل رہے ہیں۔ مٹھی میں خریدی گئی جنتری تو میرے لئے ایک تفریح کاسامان ۔ لیکن پہلی جنوری کے بعد تین چار دنوں نے جو ہنگامہ بپا کیا ہے اس کے مضمرات بہت گمبھیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے نئے سال کی اپنی پہلی ٹویٹ میں پاکستان کو نشانہ بنایا۔
اس کے نتیجے میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی سیکورٹی معاونت معطل کرنے اور فوجی سازوسامان روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں کرنے والے ممالک کی خصوصی واچ لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ یوں امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ایک فیصلہ یہ ہے کہ عزت اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ تاثر زیادہ گہرا ہوتا جارہا ہے کہ امریکہ ایک قابل بھروسہ دوست نہیں تھا اور اس نے ہمیں بار بار دھوکہ دیا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود، اس مسئلے کی پیچیدگی ابھی پوری طرح عیاں نہیں ہے۔دھیرے دھیرے شایدہماری سمجھ میں آئے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے اور اس کا کوئی تعلق ہماری قومی سوچ اور ہمارے داخلی معاملات سے بھی ہے یا نہیں۔ جہاں تک امریکہ کی سفارتی جارحیت کا سوال ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ عسکری اور سول قیادت ایک صفحہ پر ہے۔ لیکن اس اتفاق کا سایہ اس سیاسی ہلچل پر پڑتا دکھائی نہیں دے رہا جس کا ایک پہلو وہ کشیدگی بھی ہے کہ جوسول اور ملٹری اداروں کے درمیان قائم رہی ہے۔اسے بھی آپ ایک نئے سال کی آمد پر ستاروں کی چال سمجھیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا لہجہ، سعودی عرب سے واپسی کے بعد، زیادہ تلخ ہوگیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک جماعت کے ہاتھ پائوں باندھ کر لاڈلے، کے لئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ یہ دھمکی کا انداز ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف سازشیں بند کردی جائیںورنہ وہ چار سال کی پس پردہ کارروائیاں بے نقاب کردیں گے ۔ البتہ ایک بات انہوں نے دل کو لگتی کہی ہے۔ وہ یہ کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کوٹھیک کرنا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ دنیا میں ہمارا امیج وہ نہیں جوہم چاہتے ہیں۔ یہ بھی اس نئے سال کا ایک بڑا سوال ہے کہ جب ہم آئینہ دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا دکھائی دیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.