میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا۔

میں اچھا خاصہ مہذب اور پڑھا لکھا انسان ھوں۔ بیوی کو آج تک نہیں ڈانٹا۔ تین بچے ھیں۔ بچپن سے لے کر آج تک انہیں مارنا تو دور کی بات کبھی گھور کر بھی نہیں دیکھا ۔ میرا یقین ھے۔ اگر ایجوکیشن ھمیں مہذب نہیں بنا سکی۔ تو یہ ایجوکیشن ضائع گئ۔ تعلیم مکمل کرکے تینوں ڈاکٹر بن چکے ھیں۔ ڈگریوں سے زیادہ ان کا مودب پن ، ان کی محبت ، ان کی کئیر اور رشتوں کی پہچان ھے۔ جس پر میں فخر کرتا ھوں۔ تیس سال سے انگریزی ادب پڑھا رھا ھوں۔ بیس پچیس سال پرانے میرے شاگرد آج بھی میرے ساتھ جڑے ھوے ھیں۔ مجھ سے محبت کرتے ھیں۔ یہی معاملہ میرے دوستوں کا ھے۔ بیس پچیس سال سے اخبار میں لکھ رھا ھوں ۔ چار کتابیں پبلش ھو چکی ھیں۔ دو پر کام جاری ھے۔ چالیس سال سے عملی و تحریری طور پر سیاست میں ملوث ھوں۔ مختلف ادوار سے گزرتے اب ایک مخصوص نقطہ نظر کا حامل بن چکا ہوں ۔ سوشل میڈیا پر ایکٹو ھوں ۔ لیکن کسی سے الجھتا نہیں ۔ احباب کی بےشمار ایسی پوسٹیں دیکھتا ھوں ۔ جن سے اختلاف رکھتا ہوں ۔ لیکن خاموشی سے گزر جاتا ھوں۔ کبھی کسی دوست کی وال پر جا کر اس کی انسلٹ نہیں کی۔ تنگ نہیں کیا۔ میری وال پر کچھ احباب جانے یا انجانے میں الفاظ کا مناسب چناو نہیں کرتے۔ کوفت ھوتی ھے۔ لیکن ان سے بحث نہیں کرتا ۔ دو تین موقعے دیتا ھوں۔ پھر بلاک کر دیتا ھوں۔ میرا ماننا ھے۔ بحث و مباحثہ لا حاصل ھے۔ کوئی کسی کے کہنے پر تبدیل نہیں ھوتا۔ ھاں حالات و واقعات کا تسلسل اور زندگی کا ذاتی مشاہدہ و تجربہ اور علم انسان میں تبدیلی لاتا ھے۔ بچپن، لڑکپن، جوانی، درمیانی عمر اور بڑھاپے کی اپنی حرکیات ھیں۔ شور مچاتے، پتھروں سے سر ٹکراتے پہاڑی ندی نالے جب میدانوں کا رخ کرتے ہیں تو توازن اور خاموشی سے بہنے لگتے ھیں۔ اور پھر سمندروں میں گم ھو جاتے ھیں ۔ بطور والد اور بطور استاد میں نے یہ جانا بچوں کو آپ انسپائر کر سکتے ہیں ۔ لیکن آپ بچوں کو براہ راست خشک نصیحت نہیں کر سکتے۔ انہیں ڈانٹ ڈپٹ یا ڈرا دھمکا کر یا لالچ سے ڈھب پر نہیں لا سکتے۔ بچوں میں فطری مزاحمت ھوتی ھے۔ وہ نہ کہنے میں بڑائی سمجھتے ھیں۔ اپنی عزت نفس کا دفاع کرتے ہیں ۔ بچوں کو بلاواسطہ ( ان ڈائریکٹ ) طریقوں سے انسپائر کریں۔ ان کی سوچ، ان کے تخیل اور ان کی مثبت قوت فیصلہ کو انگیخت کریں۔ اپنے اوپر ان کا اعتماد قائم کریں ۔ ان سے دوستی کریں۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت شیئر کریں۔ بچے اپنی خواہشات پوری ھونے پر خوش ھوتے ھیں ۔ لیکن والدین سے دوستی انہیں خوشی کے علاوہ تحفظ کا احساس دیتی ھے۔ اپنے بچوں کو اتنی اجازت دیں۔ وہ اپنے واہیات اور احمق تجربے بھی آپ سے بیان کر لیں۔ یاد رکھیں جو بچے آپ سے ڈرتے ھیں۔ یا آپ کی محرومی کا شکار ھیں۔ وہ یا باھر نکل جاتے ہیں اور یا پھر اپنے کمروں میں مقید ھو جاتے ھیں۔ یہ دونوں صورتیں خرابی کی جانب جاتی ھیں۔ یہ زندگی اتنی طویل نہیں جسے لڑائی جھگڑوں، نفرت ، حسد اور مقابلہ بازی کی نظر کر دیا جائے ۔ خون کے رشتے پانی سے گہرے ھوتے ھیں۔ والدین، اولاد ، سگے بہن بھائی نعمت خداوندی ھیں۔ آپ کے بچپن کے سنگی ساتھی جن کے ساتھ ایک ھی چھت کے نیچے ھماری زندگی کا ایک خوبصورت وقت بسر ھوا۔ ایک ھی ماں کی ھاتھ کی پکی روٹی کھائی ۔ ایک باپ کی گود میں جھولے لیے۔ اس کی کمر پر سواری کی۔ بہن بھائی دوبارہ نہیں ملتے۔ ان سے مقابلہ کیسا۔ ان سے شریکا کیسا؟ وہ چھوٹی بہن جس کی انگلی پکڑ کر اسکول چھوڑنے گئے۔ بڑی بہن سے پیار لیا۔ دل کے جانی سگے بھائی جو آپ کا تحفظ کرتے۔ اکھٹے کھیل تماشے۔ کیسے محبت بھرے رشتے ۔ زندگی کا اصل حسن زندگی کی اصل خوبصورتی ۔ ھم کیوں ان سے ڈرتے ھیں۔ دور ھو جاتے ھیں۔ یہ زندگی پچھتاووں اور رونے دھونے کے لیے نہیں ۔
لیکن اس زندگی میں برائ ( evil ) بھی ھے۔ یہ زندگی یہ دنیا اور یہ کائنات تضادات پر کھڑی ھے۔ تاکہ توازن قائم رھے۔ یہی اللہ پاک کی حکمت ھے۔ ھم برائی سے الجھ نہیں سکتے۔ البتہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتے ہیں ۔ اپنے ذہنی سکون، آرام اور تحفظ کے لیے برائی کے وجود سے دور رھیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ برائ نہ کریں۔ برائ کچھ انسانوں اور کچھ واقعات کی صورت میں آپ کے ارد گرد موجود ھے۔ ان سے مت ملیں ۔ ان سے مت جھگڑیں ۔ اور نہ اس ذعم میں آئیں۔ آپ برائ ختم کر سکتے ہیں ۔ برائ ختم کرنے کا دعوی کرنے والوں نے اس دنیا کو جہنم بنا دیا ھے۔ اپنی زندگی کی قدر کریں ۔ اور کوشش کریں۔ اپنی اس زندگی کو آپ جئیں گے۔ ھاتھی والوں کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں۔
نوٹ۔ میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا۔ تحمید سے باھر نکلا۔ تو تخیل کہیں سے کہیں اڑا کے نکل گیا۔ پھر واپس نہیں آ سکا۔ پھر واپس کون آتا ہے ۔ واپسی کے راستے بند ھو جاتے ھیں۔ بس پھر خاموشی سے آگے اور آگے چلتے جاو اور پھر گہرے سمندروں میں گم ھو جاو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.