آخری مورچہ

جنرل ایوب نے جب پہلا مارشل لاء لگایا ۔ تو اسٹیبلشمنٹ نے کچھ فیصلے کیے۔ سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد جو تحریک پاکستان میں شامل تھی۔ ایبڈو کے قانون کے تحت نااھل قرار دے دی گئ۔ یہ فیصلہ کیا گیا۔ آئیندہ وھی سیاستدان سیاست کرے گا۔ جو اسٹیبلشمنٹ کا وفادار ھو گا۔ اور اس کی بالادستی قبول کرے گا۔ چناچہ اسٹیبلشمنٹ کی انگلی نہ پکڑنے والے سندھی ، بلوچی اور پشتون قوم پرست غدار ڈکلیر کر دیے گئے۔ یہی فارمولا بنگالیوں پر آزمایا گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کہا کرتا تھا ۔ میں وزیراعظم بن کر ایک ایسی بگھی پر کیسے سواری کر سکتا ہوں جس کو اٹھارہ اتھرے گھوڑے کھینچ رھے ھوں ۔ حتی کہ محترمہ فاطمہ جناح پر بھی غیرمحب وطن ھونے کا الزام لگایا گیا۔ یاد رھے یہ وہ قوم پرست تھے۔ جنہوں نے پاکستان بنانے میں حصہ لیا تھا اور اپنی خوشی اور رضامندی سے پاکستان میں شامل ھونے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ بھی کیا۔ اپنی پسند کے سیاستدان فوجی نرسریوں میں تیار کیے جائینگے اور وفاداری کے عوض انہیں اقتدار میں شراکت کار بنایا جاے گا۔ لیکن کلی اختیار کبھی نہیں دیا جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا۔ وہ ایک وائسرائے کا رول ادا کرے گی۔ اس مقصد کو حاصل کیے رکھنے کی خاطر پاکستان کو ایک فلاحی ریاست کی بجاے سیکیورٹی ریاست میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور لبرل ریاست کی بجائے ایک تھیوکریسی ریاست بنا دیا گیا۔ جبکہ پاکستان بنانے والوں کی یہ منشاء ھر گز نہ تھی۔ ایک حرکت یہ فرمائ گئی ۔ پاکستان کے کسی سول ادارے کو ڈویلپ ھونے نہیں دیا گیا۔ تاکہ مصیبت اور ضرورت میں عام لوگ صرف ایک ادارے کی جانب ھی دیکھیں ۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ھے۔ جس ملک پر فوجی آمریت نے طویل عرصہ حکومت کی ھو۔ اس کے سول اداروں کا یہ حال ھو۔ اور ستم ظریفی یہ ھے ان سول اداروں کی ناکامی کا بوجھ بھی ھمیشہ سیاستدانوں پر ڈالا گیا ھے۔ قومی سیاسی پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کی گئ۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو اصل خطرہ انہی قومی پارٹیوں سے تھا۔ مقامی اور مسلکی سیاست کو پروموٹ کیا گیا۔ تاکہ ان کے ذریعے منتخب حکومتوں پر دباؤ رکھا جاے اور اندرونی و بیرونی دشمنوں میں اضافہ کیا گیا تاکہ سیکیورٹی اسٹیٹ کا تصور قائم رھے۔ اور اس کے نام پر فوائد حاصل کیے جائیں۔ میڈیا میں ایک حلقے کو ان فوائد میں شامل رکھا گیا۔ اور عدلیہ کو تابع بنایا گیا۔ اور پھر ان دونوں اداروں کو منتخب حکومتوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اپنے ادارے میں ایک خاص مائنڈ سیٹ ڈویلپ کیا گیا۔ کہ اس ملک کے سیاستدان کرپٹ، نااھل اور غیر محب وطن ھیں۔ قربانیاں آپ دیتے ھیں۔ جبکہ سیاستدان ملک کو لوٹ کر کھا گئے ھیں ۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی بدقسمتی دیکھیے ۔ انہوں نے جس سیاستدان کو اقتدار میں شریک کیا۔ اسی سیاستدان نے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کر دیا۔ اگرچہ ایسے سیاستدانوں کو کرپشن اور نااھلیت کے نام پر عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ لیکن یہ عمل رک نہ پایا۔ اور آخر میں یہ کشمکش پنجاب میں آ گئ ۔ وہ پنجاب جو روائتی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا حلیف تھا۔ اگرچہ سیاسی جوڑ توڑ جاری ھیں۔ لیکن لوگوں کی جو سیاسی تربیت ھو رھی ھے۔ اور جس طرح تاریخی سیاسی شعور میں اضافہ ھو رھا ھے۔ اور جس طرح بوکھلاہٹ میں اسٹیبلشمنٹ الٹے سیدھے ھاتھ پاوں مار رھی ھے۔ اور بری طرح ایکسپوز ھو رھی ھے۔ اسے مورچے میں آخری کوشش قرار دیا جا سکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.