چغل خور مائیاں

میں جب آج کے ٹی وی ٹاک شوز دیکھتا ھوں۔ تو مجھے اپنے محلے کی مائیاں یاد آ جاتی ہیں ۔ یہ مائیاں سارا دن گھر کے دروازے کے سامنے بیٹھی رھتیں۔ اور ان کی بے شمار مصروفیات ھوتیں۔ اور شغل ھوتے۔ ان کا ایجنڈا خاصا طویل ھوتا۔ اس ایجنڈے کی ٹاپ پر چغلیاں ھوتیں جو ان مایوں کا انتہائی محبوب مشغلہ تھا۔ اور چغلیوں کے معاملے میں یہ مائیاں انتہائی غیر جانبدار اور صاف شفاف ھوتیں۔ ان کا ماٹو تھا۔ ھم سچ بولیں گی۔ چاھے کسی کو آگ لگے۔ اور یہ کہ وہ کسی سے ڈرتی ورتی نہیں ھیں۔ نہ ھی کسی تعصب کا شکار ھیں۔ چناچہ ان چغلیوں کا آغاز وہ عموما اپنی بہوؤں سے کرتیں۔ جس کا مرکزی خیال یہ ھوتا۔ کہ ان کے بیٹے زن مرید بن چکے ھیں۔ بہویں سارا دن سوئی رھتی ھیں۔ ٹکے کا کام نہیں کرتیں اور ھزاروں کی شاپنگ کرتی ھیں۔ اس کے بعد بیٹیوں کی باری آتی۔ اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا۔ کہ ان کے داماد بہت اچھے ھیں۔ اور ان کی بیٹیوں کے پاوں دھو دھو کر پیتے ھیں۔ البتہ بیٹیوں کی ساسیں مارے جانے کے لائق ھیں۔ جنہوں نے ان کی بیٹیوں کی زندگی جہنم بنا رکھی ھے۔ اس کے بعد ھمسائیوں کی باری آتی۔ اور ایک ایک جملے میں پگڑیاں اچھالی جاتیں۔ اور عزتیں نیلام کی جاتیں۔ یہ بھی شیئر کیا جاتا۔ آج کس کے گھر کیا پکا تھا۔ کس کے گھر کونسا پھل آیا تھا۔ کس گھر میں میاں بیوی کی لڑائی چل رھی ھے۔ ساس بہو کا فساد کہاں ھوا ھے۔ کس گھر کی لڑکی آزاد خیال ھو گئ ھے۔ محلے میں کس کس لڑکی اور لڑکے کا افیئر چل رھا ھے۔ منگنیوں اور شادیوں کی تازہ ترین صورتحال کیا ھے۔ اور کس لڑکی کی منگنی ٹوٹ گئ ھے۔ جوجی کا ابا کب سے بیمار ھے۔ میدے کی گھر والی آٹھواں بچہ جن رھی ھے۔ لیکن اس میں میدے اور اور اس کی گھر والی کا کوئی قصور نہیں یہ سب اللہ کی دین ھے۔ ان چغلیوں اور ڈس انفارمیشن کے علاوہ یہ مائیاں کچھ اور کاموں میں بھی مشغول ھوتیں ۔ مثلا گلی میں کھیلتے اپنے پوتوں کو پکڑ لیتیں ۔ زبردستی اپنے پاس بٹھا لیتیں اور ان کے سروں سے جوئیں نکالتیں۔ ھر جوں کو اپنے ناخن پر رکھ کر مارتیں اور شیداں کو کوستیں۔ جس کے بچوں سے یہ جوئیں پورے محلے میں پھیل رھی تھیں۔ چھوٹی بچیوں کے سروں پر تیل بھی یہیں لگایا جاتا۔ اور سبزیاں بھی انہی چغلیوں کے دوران بنا لی جاتیں ۔ ان مائیوں کو آپ گھروں میں لڑائیاں کروانے والی اور طلاقیں دلوانے والی مائیاں کہہ سکتے ہیں ۔
یہ مائیاں ماضی کا ٹاک شو تو تھیں۔ کبھی کبھار ھمیں ان مائیوں پر خفیہ ایجنسیوں کا شبہ ھوتا۔ خاص طور پر جب موری ممبرز کے الیکشن کا وقت آتا۔ تو ان مائیوں کی اھمیت بہت بڑھ جاتی۔ الیکشن لڑنے والے کھڑپنچوں کے ان مائیوں سے خصوصی روابط قائم ھو جاتے۔ ان مائیوں کے پاس پورے محلے کی فائلیں ھوتیں۔ اور ان فائلوں کی بنیاد پر وہ موری ممبرز کے الیکشن پر اثر انداز ھوتیں۔ یہ مائیاں ھمارے محلے کی آنکھیں اور کان تھیں۔ زبان تھیں اور ناخن تھیں۔ محلے میں کسی کو اتنی مجال نہ تھی۔ وہ ان مائیوں سے متکا لگائے ۔ مصروفیت کے باعث ان مائیوں کے ناخن اور بال بڑھ چکے تھے۔ چہروں پر جھریاں تھیں۔ کمر دوھری ھو چکی تھی۔ اور گلے بیٹھ چکے تھے۔ رات کے اندھیرے میں ان مائیوں پر آسیب کا شبہ ھوتا۔ جو ھمارے محلے پر مستقل چھایا ھوا تھا۔
ان مائیوں کی ایک خوبی بہت اچھی تھی۔ باوجود اس کے کہ چغلیاں کرنا ان کا مشغلہ تھا، وہ راسخ ا لعقیدہ مسلمان تھیں۔ جس عمر میں وہ تھیں۔ اس عمر میں اگرچہ چادر اور چار دیواری کی خاص ضرورت نہیں رھتی۔ اس کے باوجود جونہی یہ مائیاں اذان کی آواز سنتیں۔ اپنے سروں کو ڈھانپ لیتیں۔ اگر دوپٹہ یا چادر قریب نہ ھوتی۔ تو سبزی والی چنگیر کو ھی سر پر رکھ لیا جاتا۔ اور اگر چنگیر بھی نہ ھوتی تو پشت سے قمیض اٹھا کر سر پر ڈال لی جاتی۔ اگرچہ کمر عریاں ھو جاتی لیکن سر کو ڈھانپ لیا جاتا۔
اپنی مسلمانی بچاتے بچاتے پورے ملک کی بھی یہی حالت ھو چکی ھے۔ سر کو ڈھانپیں تو کمر عریاں ھوتی ھے۔ کمر کو بچائیں تو سر برھنہ ھوتا ھے۔ نتیجہ یہ نکلا ھے۔ ھم اپنی برہنگی اور عریانی کو لے کر خاصے کنفیوز ھو چکے ھیں۔ یہی کنفیوژن ھمیں جمہوریت کے حوالے سے ھے۔ اور سب سے بڑی کنفیوژن یہ ھے۔ ھم پہلے پنجابی، سندھی ، بلوچی اور پشتون ھیں۔ یا پاکستانی ھیں۔ اور ایک کنفیوژن یہ ھے۔ ھم پہلے مسلمان ھیں یا پاکستانی ھیں۔ اور ستم ظریفی یہ ھے۔ ان تمام کنفیوژن کا علاج ان مائیوں کے پاس بھی نہیں ھے۔ بلکہ ان چغل خور مائیوں کا کام ھی یہ ھے۔ وہ یہ کنفیوژن پھیلاے رکھیں تاکہ محلے میں ان کا ٹہکا بنا رھے اور دال دلیہ چلتا رھے۔
طارق احمد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.