موبائل فون کا زیادہ استعمال معاشرے پر اثرات مرتب کر رہا ہے

موبائل فون کا زیادہ استعما ل انسان کے میل جول کے انداز پر سب سے زیادہ اثر مرتب کر رہا ہے، دو بدو ملاقاتیں اور آپس کے تعلقات میں بھی بہت حد تک فرق آ چکا ہے،موبائل فون کا زیادہ استعمال سماجی تعلقات پر بھی اثر ڈالتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار الیکٹرونکس ڈیپارٹمنٹ قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر حسن محمود، اینتھرو پولوجسٹ ڈاکٹر وحید اقبال اور ماہر نفسیات ڈاکٹر ماریہ مصطفی نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کے دوران کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائل سے نکلنے والی نیلے رنگ کی شعائیں نوجوانوں کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں جس کے نتائج آج نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو پتا چل سکتے ہیں، لیپ ٹاپ کا ٹانگ پر رکھ کر استعمال بانجھ پن کی بیماری کاباعث بن رہا ہے،الیکٹرانک اشیا ء کے موثر استعمال کیلئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے،مائیکرو یو میں کھانا گرم کرنے سے بہتر ہے چولھے کے استعمال کو زیادہ ترجیح دی جائے۔

ڈاکٹر حسن محمود نے ہے کہا کہ سائنسدانوں کے دو گروپ بن چکے ہیں،کچھ کے مطابق موبائل فون سے نکلنے والی شعاؤں سے کوئی نقصان نہیں ہوتاجبکہ دوسرے گروپ کے مطابق برقی شعاؤں سے انسان کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دو طرح کی شعائیں ہوتی ہیں آئی نائزنگ اور نان آئی نائزنگ،ایکسرے میں جو شعائیں نکلتی ہیں وہ آئی نائزنگ ہوتی ہیں جو بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں اور کینسر تک لے جاسکتی ہیں۔

موبائل فون میں نا ن آئی نائزنگ شعائیں موجود ہوتی ہیں جو جسم کے اندر توڑ پھوڑ نہیں کرتیں لیکن ان کے اثرات ہوتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ انسان کے اندر جو سسٹم کام کر رہا ہے وہ بھی الیکٹریکل سگنلز کی بنیاد پر چلتا ہے، جب ہم موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے دل اور دماغ کے اندر موجود الیکٹریکل سگنلز سے وہ چیز لنک ہوجاتی ہے۔

ان کا کہناتھا کہ سائنسدانوں کے اس پر دو گروپ بن چکے ہیں کچھ کے مطابق ان شعاؤں کا کوئی نقصان نہیں جبکہ دوسرے گروپ کے مطابق برقی شعاؤں سے انسان کی صحت کو نقصان پہنچتا ہے، آج جو نوجوان موبائل فون استعمال کر رہے ہیں ان پر دس سال بعد اس کا کیا اثر ہوتا ہے یہ آج ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔

ڈاکٹر حسن کا کہنا تھا کہ نیلے رنگ کی شعائیں جو ڈیوائس میں سے خارج ہوتی ہے وہ نوجوانوں کی صحت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں اور اس کے اثرات آج نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی پتا چل سکتے ہیں، خاص کر انسان کی پیدائش اور جینیٹک کوڈ بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون کو جسم کے قریب یعنی جیب میں رکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں،اس وقت جتنی شعائیں نکل رہی ہیں چاہے وہ ٹاور سے ہوں یا موبائل اور دیگر ڈیوائس سے وہ اتنی ہیں کہ جن سے بچنا نا ممکن ہوچکا ہے۔ موبائل کا بڑھتا استعمال ہماری ثقافت کو بھی تبدیل کر رہا ہے،لوگ اگر خود غلطی پر ہوں لیکن وہ الزام موبائل فون پر ڈال دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون کی طرح لیپ ٹاپ کے بھی نقصانات ہیں اور اسے قطعاً ٹانگ پر رکھ کر استعمال نہ کریں بلکہ کسی ٹیبل پر رکھ کر استعمال کریں۔اسی طرح اس طرح کی ڈیوائسز میں جہاں تعلیمی میدان میں فائدے ہیں وہیں ساتھ میں لوگ اس کو آلہ چیٹنگ کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں۔

مائیکر ویو آون سے نکلنے والی شعاؤں سے متعلق کہنا تھا کہ اس سے نکلنے والی شعائیں بھی صحت کیلئے خطرناک ہوتی ہیں اور بہتر یہ ہے جب بھی آون استعمال کیا جائے اس کے قریب نہ کھڑ اہو ا جائے۔

اینتھرو پولوجسٹ ڈاکٹر وحید اقبال کا کہنا تھا کہ موبائل فون کی بہتات نے انسان کے میل جول کے انداز پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے، دو بدو ملاقاتیں اور آپس کے تعلقات میں اس سے بہت حد تک فرق آیا ہے۔

موبائل فون کا زیادہ استعمال سماجی تعلقات پر گہرا اثر ڈال رہا ہے،اسی طرح نائٹ پیکیجز بھی ختم ہونے چاہئیں کیونکہ اس سے بچوں کی رجہان پر کافی اثر پڑرہاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موبائل کا کثیر استعمال بچوں اور والدین کے اندر دوری کا سبب بنتا جارہا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصا ن یہ ہے کہ ہم اس ڈیوائس کی وجہ سے جز وقتی ہر جگہ موجود ہیں اور مکمل طور پر کہیں موجود نہیں۔

ایک گھر میں بیٹھے ماں اور بچے بھی آپس میں موبائل کے ذریعے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے محبت بھی ختم ہوتی جارہی ہے، ڈاکٹر وحید کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال انسانی یاد داشت پر گہرا اثر مرتب کر رہا ہے۔

غرض یہ کہ موبائل فون نے ہمیں اتنا مشغول کردیا ہے کہ ہر انسان اپنے موبائل فون کوہر تھوڑی دیر بعد ضرور اٹھا کر دیکھتا ہے، سماجی زندگی اور نجی زندگی کا فرق ختم ہوچکا ہے۔
بشکریہ جیو نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.