’جو بھی انڈیا کو ہرا پایا‘: سمیع چوہدری کا کالم

انہونی اب تک کی کارگزاری میں فقط یہ ہے کہ دفاعی چیمپیئن انگلینڈ پوائنٹس ٹیبل کی آخری سیڑھی پر کھڑا ہے وگرنہ باقی سب کچھ معمول کے مطابق ہی چلتا آیا ہے اور چار سیمی فائنلسٹس بھی لگ بھگ طے ہو ہی چکے ہیں۔

زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ فخر زمان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ناقابلِ شکست اننگز اس ورلڈ کپ کی بہترین سنچری قرار دی جا رہی تھی کہ گذشتہ شب وانکھیڈے سٹیڈیم میں گلین میکسویل نے اپنے آدھے ادھورے جسم کے ہمراہ ون ڈے کرکٹ تاریخ کی بہترین اننگز کھیل ڈالی۔

اس سے پہلے بھی ورلڈ کپ میں ہدف کے تعاقب پر کچھ عظیم اننگز کھیلی گئی ہیں جن میں ماضی قریب کی وہ اننگز قابلِ تحسین تھی، جہاں ایک خطیر ہدف کے تعاقب میں آئرش مڈل آرڈر بلے باز کیون او برائن نے سٹورٹ براڈ اور جیمز اینڈرسن پر مشتمل انگلش اٹیک کو آڑے ہاتھوں لے کر انگلش ٹیم کو ڈھیر کر دیا تھا۔

مگر او برائن کی وہ اننگز بھی اس قدر نامساعد حالات میں نہیں ابھری تھی جو یہاں گلین میکسویل کو درپیش تھے۔ آسٹریلوی اننگز کی پہلے ایک ہی گھنٹہ میں سات وکٹیں گرنے کے بعد افغانستان ایک نئے اپ سیٹ ریکارڈ کے عین قریب تھا مگر میکسویل کے عزائم کچھ اور ہی تھے۔

میکسویل کی اس ایک اننگز نے نہ صرف آسٹریلیا کو سیمی فائنل تک پہنچا دیا بلکہ چوتھے سیمی فائنلسٹ کی دوڑ کو بھی زندہ رکھا جس کے لیے ابھی تک تین امیدوار موجود ہیں۔

Kohli

نیوزی لینڈ کے لیے بُری خبر یہ ہے کہ سری لنکا کے خلاف ان کا میچ بارش کی نذر ہو سکتا ہے۔ اگر یہ میچ بُرے موسم میں بہہ گیا تو ولیمسن کی ٹیم اگلے میچوں میں افغانستان اور پاکستان کی شکست کی منتظر رہے گی۔ افغانستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف شکست تو بعید از قیاس نہیں ہے مگر انگلش ٹیم کا موجودہ فارم سے پاکستان کو ہرا پانا تقریباً ناممکن ہے۔

اب تک کی کارگزاری میں یہ بھی واضح ہوا ہے کہ جنوبی افریقی ٹیم اپنی بہترین کارکردگی کے لیے ٹاس پر قسمت کی تائید کی منتظر رہتی ہے۔ ابھی تک ٹورنامنٹ کے تین میچز میں انھیں ہدف کا تعاقب کرنا پڑا ہے اور محض پاکستان کے خلاف ایک وکٹ کی دقت آمیز کامیابی حاصل ہو پائی ہے۔

سو، ناک آؤٹ مرحلے میں اگر ٹیمبا باوومہ ٹاس ہار گئے تو حریف کپتان یقیناً انھیں پہلے بولنگ کی دعوت ہی دیں گے کیونکہ ہدف کے تعاقب میں یہی مضبوط ترین بیٹنگ لائن اپنے اندر ہی اعصاب کا ایک میدان جنگ بن جاتی ہے اور پہلی اننگز میں کشتوں کے پشتے لگانے والے بزرجمہر دوسری اننگز میں بلا چلانے سے ہی ہلکان ہو رہتے ہیں۔

ناک آؤٹ مراحل میں، ٹاس جیتنے والے کپتان پہلے بیٹنگ کو اس لیے بھی ترجیح دیں گے کہ فلڈ لائٹس کی مصنوعی روشنی میں دو نئی گیندوں کا سامنا کرنا عموماً بلے بازوں کے لیے دشوار ہوا کرتا ہے۔ اور اگر بولنگ اٹیک انڈیا کا ہو تو پھر یہ دشواری دقت سے بھی سوا ہو کر ممکنات کے جہاں سے باہر نکل جاتی ہے۔

Australia

کچھ عرصہ پہلے تک یہ بحث تواتر سے ہو رہی تھی کہ اگر شاہین آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ پر مشتمل اٹیک دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے تو اس قبیل کی کوئی اور شے بھی کیا کہیں موجود ہے۔ مگر اب یہ بحث تمام ہو چکی کہ جسپریت بمراہ، محمد سراج اور محمد شامی پہ مشتمل اٹیک بلاشبہ دنیا کا بہترین پیس اٹیک ہے۔

نہ صرف یہ تینوں پیسرز اپنی ہوم کنڈیشنز اور مختلف انواع کی سرخ و سیاہ مٹی کے باؤنس سے بخوبی شناسا ہیں بلکہ ڈسپلن کے ساتھ پے در پے ایک ہی لینتھ کو نشانہ بنانے میں بھی پوری مہارت رکھتے ہیں۔ اور ڈسپلن میں یہ قدرت محض اس لیے میسر ہے کہ ان تینوں بولرز کی بنیاد ٹی ٹونٹی کے بجائے فرسٹ کلاس کرکٹ میں ہے۔

یہ انڈین پیس اٹیک لفظی اعتبار سے صحیح معنوں میں ناقابلِ تسخیر ہے جب گیند نئی ہو، وکٹ میں ہلکی سی بھی سوئنگ ہو اور مصنوعی روشنیاں جل رہی ہوں۔ ہاں، اگر کسی ٹیم کو ایسا جری ٹاپ آرڈر میسر ہو جو اس تند رفتاری کے سامنے اپنے قدم چلا سکتا ہو اور گیند کی چمک ماند پڑنے تک اس یلغار کو جھیل سکتا ہو تو شاید اچھے فٹ ورک والے مڈل آرڈر بلے باز اس کا کوئی توڑ کر پائیں۔

انڈین ٹیم نہ صرف اپنی ہوم کنڈیشنز کی بنیاد پر فیورٹ ہے بلکہ روہت شرما کی قابلِ تقلید قیادت میں ان کی بیٹنگ بھی اپنے بھرپور جوبن پر ہے۔ اور پیس کے علاوہ ان کے دونوں سپنرز کلدیپ یادیو اور رویندرا جڈیجا بھی شاید ہی کسی حریف کے پلے پڑے ہوں گے۔

اب تک کی کارروائی یہی واضح کرتی ہے کہ یہ ورلڈ کپ انڈیا کا ہے اور اگر باقی تین سیمی فائنلسٹس اس حقیقت کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو انھیں پہلے انڈیا کو ہرانا ہو گا کیونکہ جو انڈیا کو ہرا پایا، ٹرافی اس سے دور نہیں ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.