جلتی دھوپ میں واحد سایہ، میرا ملک جہنم نہیں ہے

‏چند سال پہلے ہمارے محلے میں گلی کے کونے پر ایک نوجوان نے شوارمے کا اسٹال لگایا. مکمل سامان اور اسٹال اس نے غالباً پچیس تیس ہزار میں لیا تھا. محنتی اور ایماندار تھا اس لیے کام چل نکلا. سہ پہر تین بجے آتا اور رات ڈیڑھ دو بجے تک کام کرتا. گھر کا خرچہ وغیرہ بآسانی پورا ہوجاتا. جس دکان کے سامنے اسٹال لگایا تھا اسے بھی روزانہ سو روپیہ کرایہ دیتا. کچھ عرصہ بعد مارکیٹ میں ایک کمیٹی بھی ڈال لی. پہلے پہل صرف سادہ شوارمہ ہی ملتا تھا آہستہ آہستہ زنگر شوارمہ اور زنگر برگر وغیرہ بھی بنانے لگا گیا. پیچھے ایک دکان خالی ہوئی تو فوراً کرایہ پر لے لی. چار کرسیاں میز اور ایک فریج رکھ کر کولڈ ڈرنکس بھی رکھ لی. اب لوگوں کو بیٹھنے کی سہولت بھی مل گئی تو رش اور بڑھ گیا. کچھ ہی ہفتوں میں شامی کباب اور برگر کا اسٹال بھی ساتھ شامل کرلیا دو ملازم رکھ لیے. پھر ایک اور دکان کرایہ پر لی اور باربی کیو وغیرہ بھی شروع کرلیا. آج الحمدللہ شوارما سے کام شروع کرنے والے کے پاس چھ ملازم کام کررہے ہیں جن کی تنخواہ کم از کم چھ سو سے لے کر دو ہزار روپے تک روزانہ ہے. سنا ہے چند دن میں ناشتہ پوائنٹ بھی شروع کرنے والا ہے. اب وہ ماشاءاللہ ماہانہ لاکھوں روپے کما رہا ہے
جانتے ہیں یہ سب کچھ کیسے ہوا. اس کی صرف دو وجوہات ہیں
ایک تو یہ کہ وہ محنتی تھا دوسرا یہ کہ اسے کسی دانشور نے یہ نہیں بتایا تھا کہ
یہ ملک جہنم بن گیا ہے، رہنے کے قابل نہیں رہا اس لیے جتنی جلدی ہو اور جیسے بھی ہو اس ملک سے نکل جاؤ چاہے کوئی غیر قانونی طریقہ ہی کیوں نا استعمال کرنا پڑے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.