پرانی بوتل، پرانی شراب، لیکن نئے نعرے کا انوکھا معاملہ

(انصار عباسی) پاکستانیوں کی جانب سے بیرون ممالک چھپائے جانے والے اربوں ڈالرز وطن واپس لانے کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت نے تاحال کسی بھی غیر ملکی حکومت کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا۔ ایک معاملے میں، ایک عالمی معاہدہ جس کا نام ’’ٹیکس امور کیلئے کثیر الفریقی معاہدہ برائے باہمی انتظامی معاونت‘‘ ہے، میں معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کا مقصد ٹیکس سے بچنے کے بڑھتے واقعات کو روکنا تھا، اور یہ معاہدہ رواں سال ستمبر سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ معاہدے کے حوالے سے رکن ممالک کی تعداد 100؍ ہے جبکہ اس پر پاکستان کی طرف سے 14؍ ستمبر 2016ء کو اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے او ای سی ڈی کے فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم ہیڈکوارٹرز میں دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ رکن ممالک سے پاکستانیوں کی جانب سے ان کے ملک میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور جمع کی جانے والی دولت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے۔ پاکستان کے معاملے میں، یہ معاہدہ ستمبر میں نافذ العمل ہوگیا یعنی پی ٹی آئی حکومت کے آنے کے چند ہفتوں بعد۔ ایک اور معاملے میں دیکھیں تو پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں اکائونٹس کی معلومات کے

تبادلے کے معاہدے کی توثیق مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ہوئی اور اس پر دستخط ہوئے تھے۔ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے احتساب بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر نے رابطہ کرنے پر دی نیوز کو اس بات کی تصدیق کی کہ کسی بھی غیر ملکی حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستانیوں کے بیرون ممالک موجود دولت کے حوالے سے معلومات کا تبادلہ او ای سی ڈی معاہدے کے تحت حاصل کی جا رہی ہیں، جس پر دو سال پہلے دستخط کیے گئے تھے۔ پاکستان اور سوئٹرزلینڈ کے درمیان معاہدے کے حوالے سے شہزاد اکبر نے کہا کہ اس پر کارروائی اور دستخط ن لیگ کے دور میں ہوئے تھے لیکن اب اس کی توثیق پی ٹی آئی حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ن لیگ حکومت نے اگرچہ اس معاملے پر کام 2013ء میں شروع کیا تھا لیکن اس پر چار سے پانچ سال تک دستخط نہیں کیے جس سے کئی لوگوں کو تشویش لاحق ہوگئی تھی۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ کچھ شکایات کے بعد، نیب فی الوقت اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ ن لیگ کی حکومت میں معاہدے پر دستخط میں تاخیر کیوں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس تاخیر کی وجہ سے ن لیگ کے چار سے پانچ سال کے دور پر شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ شہزاد اکبر بیرون ممالک چھپائی گئی دولت واپس لانے کیلئے زبردست کوشش کر رہے ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ او ای سی ڈی معاہدے نے وہ پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جس سے کئی ملکوں میں پاکستانیوں کی دولت کی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ 14؍ ستمبر 2016ء کو او ای سی ڈی نے خود اعلان کیا کہ پاکستان آف شور ٹیکس چوری اور ٹیکس سے بچنے کیخلاف انتہائی طاقتور کثیر الفریقی معاہدے کا 104واں رکن بن چکا ہے۔ او ای سی ڈی کی جانب سے جاری کر دہ پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ او ای سی ڈی کے پیرس میں قائم ہیڈکوارٹرز میں پاکستان کے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ’’ٹیکس امور کیلئے کثیر الفریقی معاہدہ برائے باہمی انتظامی معاونت‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے، اس موع پر او ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل اینجل گوریا بھی موجود تھے، اور اس طرح پاکستان معاہدے میں شامل 104واں ملک بن گیا۔ پریس ریلیز میں مزید لکھا تھا کہ یہ معاہدہ بین الاقوامی سطح پر ٹیکس کے حوالے سے انتہائی طاقتور معاہدہ ہے۔ اس کے تحت ٹیکس امور کے حوالے سے ہر طرح کی انتظامی معاونت حاصل کی جا سکے گی، درخواست پر معلومات کا تبادلہ ہو سکے گا، فی البدیع تبادلہ ہوگا، از خود تبادلہ ہوگا، بیرون ممالک ٹیکس کی پڑتال ہو سکے گی، بیک وقت ٹیکس پڑتال ممکن ہوگی اور ساتھ ہی ٹیکس جمع کرنے میں معاونت حاصل کی جا سکے گی۔ اس میں ٹیکس دہندگان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ او ای سی ڈی نے مزید کہا تھا کہ معاہدے پر دستخط سے پاکستان آف شور ٹیکس چوری اور ٹیکس سے بچنے کیخلاف اپنے زبردست عزم کے اظہار کا اشارہ دے گا۔ مزید برآں، پاکستان بی ای پی ایس کے فریم ورک کا بھی حصہ ہے اور اس طرح ملکوں کے لحاظ سے از خود معلومات حاصل ہوتی رہے گی جیسا کہ بی ای پی ایس پیکیج کے ایکشن نمبر 13؍ میں کہا گیا ہے۔ معاہدے کے تحت معلومات کا از خود اور فوری تبادلہ ممکن ہو سکے گا لہٰذا معاہدے پر دستخط اور اس کی توثیق کا کام بروقت کیا گیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.