فہمیدہ کی جی داری کمال تھی، اُن کے ساتھ منٹو جیسا برتاؤ ہوا

’’ اس مرتبہ’’ آواز‘‘ کے شمارے میں چی گویرا کا سرِورق دیتے ہیں اور مَیں نے مضمون کے آغاز میں لکھا ہے کہ ’’جب آمر پیدا ہوتا ہے، اُس دن وہ مرجھاتا ہے اور جب ہیرو مرجاتا ہے یا ماردیا جاتا ہے، وہ اُس دن پیدا ہوتا ہے۔‘‘ فہمیدہ ریاض نے بڑے جوش سے مجھے مخاطب کیا۔ مَیں نے کہا،’’ فہمیدہ صاحبہ! جنرل ضیاء الحق کے دَور میں چی گویرا…اور پھر اس طرح لکھنا، آپ کو علم ہے کہ گناہ ہے، جس کی پاداش میں’’ آواز‘‘ بند ہوجائے گا۔‘‘ اُنہوں نے کہا،’’ اچھا چلو، ساحر لدھیانوی نمبر نکالتے ہیں۔‘‘ یہ 1980ء، 1981ء کی بات ہے، جب فہمیدہ ریاض پر ضیاء الحق کی حکومت نے کئی مقدمات قائم کر رکھے تھے۔ اُن کے شوہر، ظفر علی اجّن نے تو جیل بھی کاٹی، تاہم فہمیدہ کی ضمانت ہوگئی تھی۔ فہمیدہ ریاض کے معاشی حالات اُن دنوں بہت خراب تھے۔ ہمیں مرینہ ہوٹل میں ایک کمرا مل گیا تھا، جسے’’ آواز‘‘ کا دفتر بنایا گیا، لیکن مسئلہ یہ درپیش تھا کہ’’ آواز‘‘ شایع کرنے کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں؟ اس کے لیے اُنھوں نے ایک ترکیب نکال ہی لی۔ ہم نے ترقّی پسندوں کی ایک فہرست بنائی، جن سے کم از کم ایک، ایک سو روپے وصول کرنے تھے۔ ہم اُنھیں بتاتے تھے کہ’’ جنرل ضیاء الحق کے خوف سے لوگ اشتہار نہیں دیتے، اس لیے اور کوئی طریقۂ کار نہیں۔‘‘ اُن دنوں فیض احمد فیض، بیروت میں آزادیٔ فلسطین کی تحریک کے سربراہ، یاسر عرفات کے ساتھ’’ لوٹس‘‘ رسالہ نکالتے تھے، جس کے تین ورژن تھے۔ عربی اور انگریزی ورژن، فیض صاحب ایڈٹ کرتے، جب کہ فرانسیسی ورژن فرانس کے ایک معروف ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ایک صبح فہمیدہ ریاض ہوٹل مرینہ آئیں، کہنے لگیں کہ’’ آج تمہارے لیے چند’’ لوٹس‘‘ میگزین لائی ہوں۔ تم نے اُن کے تراجم کرنے ہیں۔‘‘ مَیں اُن دنوں برگر، چائے اور مشروب کا ایک چھوٹا سا ریستوران چلا رہا تھا۔ مرینہ ہوٹل کو تو آگ لگادی گئی تھی، اس لیے وہ بند ہوگیا تھا، لہٰذا فہمیدہ اکثر میرے ریستوران میں آکر دُکھ درد ہلکا کرکے دفتر چلی جاتیں۔ یہ خیریت رہی کہ سابق سوویت یونین کی شایع کردہ کُتب، جن میں زیادہ تر عالمی ادب کے تراجم تھے، بڑی ارزاں قیمت پر دست یاب تھے۔ وہ اکثر وہاں سے روسی ادب کی کتابیں چند دِنوں کے لیے لیتیں اور اُن میں سے کچھ ادب پاروں کو’’آواز‘‘ میں بھی شامل کرلیتیں۔ میرے ذمّے’’لوٹس‘‘ میں شایع ہونے والی نظموں کا ترجمہ کرنا تھا، چناں چہ مَیں نے ناظم حکمت، پابلو نیرودا، محمود درویش، نادیہ توعینی، آرمیتو اور دیگر شعراء کی نظموں کے تراجم کیے۔’’ آواز‘‘ کے لیے اسکیچ بنانے کا کام معروف اور بہترین آرٹسٹ، انعام راجا نے اپنے ذمّے لے لیا تھا۔ انعام راجا کا ہاتھ اس قدر دھنک رنگ اور خُوب صورت تھا کہ شاید برّصغیر میں کم ہی کسی کو میّسر آیا ہو۔ ایک مرتبہ فہمیدہ ریاض نے انعام راجا سے کہا کہ ایک کہانی کے لیے بھیڑیے کا اسکیچ چاہیے۔ مرحوم انعام راجا نے اس قدر خُوب صورت اسکیچ بنایا کہ فہمیدہ ریاض کا تبصرہ تھا’’ نجم! تم ہمیشہ جمالیات کا تذکرہ کرتے ہو۔ یہ دیکھو، انعام راجا نے ایک خون خوار بھیڑیے کو کس قدر خُوب صورت بنا دیا کہ جو دیکھے، کہہ اٹھے، واہ، واہ!‘‘۔ چند شمارے نکالنے میں جو عذاب جھیلنے پڑے، وہ تو اپنی جگہ، لیکن سینسر کے لیے ہر شمارے کو محکمہ انفارمیشن لے جانا پڑتا تھا۔ وہاں پنجابی اور اُردو کی شاعرہ، شہناز نور بھی تھیں، مگر وہ کہتی تھیں کہ’’ ہم مجبور ہیں۔‘‘ سینسر کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار بھی نہیں تھا۔

1980ء میں امریکا کے ایماء پر’’ ماسکو اولمپک‘‘ کا دنیا بھر نے بائیکاٹ کردیا۔ اس میں پاکستانی طائفہ بھی تھا، خاص طور پر ہاکی کی ٹیم غیرمعمولی تھی۔ فہمیدہ نے مجھ سے کہا’’ اولمپک بائیکاٹ کے بارے میں کس طرح لکھیں؟‘‘، فہمیدہ کی جی داری پر تو کوئی شبہ ہی نہیں تھا۔ مَیں نے کہا کہ’’ مَیں خود ہاکی کھیلتا ہوں۔ ہاکی کی تاریخ پر لکھتے ہیں۔ تصویریں ہاکی کی لگاتے ہیں اور سامراجی امریکا کا اس سے بائیکاٹ کی مہم کا پردہ چاک کرتے ہیں۔‘‘ یوں ’’آواز‘‘ کے شمارے میں مضمون شایع ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد حکّام کو علم ہوگیا کہ کس طرح ہاکی کی تاریخ کے پردے میں امریکا کو بے نقاب کیا گیا ہے، تو’’ آواز‘‘ بند کردیا گیا۔ اُس کے بہ مشکل آٹھ شمارے ہی شایع ہوئے تھے اور بندش کا آمرانہ حکم آگیا۔ یوں فہمیدہ کا پاکستان میں رہائش پزیر رہنا بھی مشکل ہوگیا۔ اُسی دور میں اُن کا کسی نہ کسی طرح، امرتا پریتم سے رابطہ ہوگیا، جنہوں نے اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی سے سیاسی پناہ لینے کی اجازت لے دی۔ بعدازاں، فہمیدہ ریاض اور ظفر علی اجّن ایک مشاعرے کی دعوت کے بہانے بھارت چلے گئے۔ اس معاملے میں مجھ سے بھی پوچھ گچھ ہوئی، لیکن کسی طور بچ گیا۔ فہمیدہ ریاض پاکستان کی وہ واحد شاعرہ تھیں، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے تحریکِ آزادیٔ نسواں اور ترقّی پسند تحریک کے امتزاج کو پیش کیا۔ اُن کی تخلیقی اور سیاسی سوچوں پر بہت دشنام طرازی کی گئی، بارشِ سنگ بھی ہوتی رہی، لیکن اُنھوں نے جبر کا شکار ہونے کے باوجود، تخلیقی سفر جاری رکھا۔ اُن کی کئی تصنیفات ہیں۔ طالبِ علمی کے زمانے میں اُن کی پہلی نظم’’ فنون‘‘ میں شایع ہوئی، جب کہ اُن کا پہلا مجموعہ’’پتھر کی زبان‘‘ 1967ء میں اشاعت پزیر ہوا۔ فہمیدہ ریاض نے پہلی شادی کا جتنا عرصہ برطانیہ میں گزرا، وہ اس لحاظ سے اُن کے لیے فائدہ مند رہا کہ اس دوران اُنہوں نے فلم سازی میں بھی سند حاصل کرلی۔ اُنھیں آرٹ فلمیں بنانے کا بہت شوق تھا، لیکن اُن دنوں پاکستان میں تخلیقی کام کرنا خاصا مشکل تھا، اس لیے وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔

فہمیدہ ریاض نے بہت منفرد اور اعلیٰ ادب تخلیق کیا۔ اُنہوں نے فارسی کی تعلیم کم عُمری ہی میں حاصل کر لی تھی۔ جس کے نتیجے میں ’’رومی‘‘ کے کلام کا فارسی سے اُردو میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ، سندھی زبان کے نام وَر شعراء، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور شیخ ایّاز کے کلام کے بھی تراجم کیے۔ اس کے باوجود کہ وہ میرٹھ، یوپی میں 28؍جولائی 1946ء میں پیدا ہوئیں اور اُن کی مادری زبان اُردو تھی، لیکن فارسی، سندھی اور انگریزی پر اُنہیں خوب دست رَس تھی۔ اُنھوں نے بابری مسجد کے معاملے پر جس طرح بھارت میں فرقہ واریت کا برہنہ رقص دیکھا اور وہاں’’ ہندو راج‘‘ قائم کرنے کی باتیں سُنیں، تو ایک نظم کا عنوان یوں دیا ’’تم بھی بالکل ہم جیسے نکلے‘‘ چند سطریں ملاحظہ بھی کیجیے؎ ’’تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چُھپے تھے بھائی…وہ مو رکھتا ،وہ گھامڑ پن، جس میں ہم نے صدی گنوائی…آخر پہنچی دوار توہارے، ارے بدھائی ،بہت بدھائی۔‘‘

22؍نومبر 2018ء کی ایک اداس صبح خبر ملی کہ’’ فہمیدہ ریاض کا 73؍برس کی عُمر میں لاہور میں انتقال ہوگیا‘‘۔ اور یہ خبر اسلام آباد سے مرتضٰی سولنگی نے دی۔ یہ وہی مرتضیٰ سولنگی ہیں، جنھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ فہمیدہ کے بیٹے، کبیر کا امریکا میں انتقال ہوا، تو وہاں کوئی اپنا نہیں تھا، سوائے میرے۔ سو، اُس کی موت کی اطلاع دینا اور تدفین کے سب انتظامات میرے ذمّے تھے۔ مگر میں نے فہمیدہ کو یہ سب کیسے بتایا، یہ صرف مَیں ہی جانتا ہوں۔ شاید وہ میری زندگی کے مشکل ترین لمحات تھے۔‘‘ فہمیدہ بیٹے کی موت کے بعد حد درجہ اداس رہنے لگی تھیں، پھر بیماریوں نے بھی گھیر لیا۔ عرصۂ دراز سے کراچی میں رہائش پزیر تھیں، لیکن پھر لاہور میں مقیم بیٹی نے اُنھیں اپنے پاس بلالیا اور پھر کچھ ہی عرصے بعد خداوند کریم نے اپنے پاس بلالیا۔ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں فہمیدہ ریاض کی موت کی خبر انتہائی صدمے اور افسوس کے ساتھ سُنی گئی۔ یہ مقبول رائے ہے کہ فہمیدہ جیسی شاعرہ، اب شاید نہ پیدا ہوسکے۔ جن کی نظموں پر ہرزہ سرائی کی گئی، خاص طور پر ایک نظم پر تو بہت ہی تنقید کی گئی۔ سعادت حسن منٹو کے ساتھ جو ہوا، کم و بیش فہمیدہ کی شاعری کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔ 1980ء سے 1981ء’’ آواز‘‘ کا دَور مشکل دَور تھا، جب نذیر عباسی کی شہادت ہوئی، تو فہمیدہ کی آنکھوں میں آنسو تھے، اُنھیں حسن ناصر شہید بہت یاد آ رہے تھے اور آج… ہم فہمیدہ ریاض کو یاد کررہے ہیں۔’’ یہ تو برزخ ہے، یہاں وقت کی ایجاد کہاں…اِک برس تھا کہ مہینہ ہمیں اب یاد کہاں‘‘، فہمیدہ ریاض بھی یادوں کی ایک طویل داستاں چھوڑ کر، دنیائے ادب کو کچھ اور بھی ویران، سُونا کر گئی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.