سوشل میڈیا پر کریک ڈائون کے باوجود جعلی خبروں کا پھیلنا بدستور جاری

محققین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کیخلاف جعلی خبروں کے حوالے سے سخت کریک ڈائون اور کارروائی کے باوجود 2016ء کے مقابلے میں جعلی خبریں پہلے سے زیادہ پھیل رہی ہیں۔ برطانیہ کے آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے محققین نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر بدستور انتہا پسندانہ، سازشی، سنسنی خیز اور جھوٹے تبصروں پر مبنی خبروں سے بھرا ہوا ہے اور ساتھ ہی غیر معیاری خبروں کی دیگر اقسام بھی موجود ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جعلی خبروں میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے یا پھر ایسا مواد گمراہ کن سرخیوں کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے اور ان میں ناقابل بھروسہ ذرائع کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مسلسل 30؍ روز تک 25؍ لاکھ ٹوئٹس اور تقریباً سات ہزار کے قریب فیس بک پیجز کا جائزہ لینے کے بعد تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر جس مواد اور پوسٹس کے حوالے سے پانچ فیصد تک حوالہ جات دیے جاتے ہیں وہ سرکاری ایجنسیوں، ماہرین یا پھر سیاسی امیدواروں کی جانب سے ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں سوشل میڈیا پر زیر گردش بیکار خبروں پر مبنی مواد 2016ء کے مقابلے میں زیادہ بڑھ گیا ہے اور صارفین پیشہ ورانہ مواد کی بجائے بیکار خبروں کے لنک بڑی تعداد میں پھیلا رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں پہلے جھوٹی خبریں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کے حوالے سے تھیں لیکن اب یہ مرکزی سیاسی دھارے تک پھیل چکی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر فلپ ہائوورڈ کا کہنا تھا کہ تازہ ترین تحقیق میں اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ خود کار اکائونٹس یا روبوٹس کے ذریعے کس قدر مواد سوشل میڈیا میں پھیلایا جاتا ہے یا اسے غیر ملکی ادارے یا ایجنسیاں پھیلاتی ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جس انداز میں جعلی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں وہ روسی طریقہ کار ہے اور یہی وہ طریقہ ہے جو روسیوں کی جانب سے 2016ء کے امریکی انتخابات کے دوران اختیار کیا گیا تھا۔ فلپ ہائوورڈ کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر اور فیس بک کی جانب سے غلط معلومات کی روک تھام کیلئے کیے گئے اقدامات صرف چھوٹے موٹے اقدامات ہی ثابت ہوئے ہیں اور شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے معمولی اقدا ما ت زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے۔ ٹوئٹر کی ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ہم زبردست آزاد تحقیق کا احترام کرتے ہیں اور یہ قابل تعریف بھی ہے لیکن ہمیں کچھ نتائج پر اعتراض ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.