نیب احتساب سے بالا تر کیوں؟

پنجاب یونیورسٹی کے بزرگ، بیمار اور ریٹائرڈ اساتذہ کو ڈی جی نیب لاہور نے ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت کے سامنے پیش کیا اور اپنی اس کارروائی کو بڑے فخر کے ساتھ ساری دنیا کو ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ذریعے دکھایا۔ بیچارے اساتذہ نے کیا جرم کیا، اُن سے کیا غلطی سرزد ہوئی اس کا فیصلہ بعد میں ہو گا لیکن نیب نے اساتذہ کی تذلیل کا جو اہتمام کرنا تھا وہ کر چکا اور یہی نیب کا ہمیشہ سے طرۂ امتیار رہا۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا، اُن کو ساری دنیا کے سامنے ذلیل کرنا یہ وہ مکروہ فعل ہے جس میں نیب کا کوئی ثانی نہیں۔ پکڑتے پہلے ہیں، ہتھکڑیاں لگا کر دوسروں کی عزت کو تار تار بھی پہلے کرتے ہیں اور بعد میں سوچتے ہیں کہ اب کیس کیا بنایا جائے۔ جس الزام پر پکڑتے ہیں اگر اس میں کوئی شواہد نہ ملیں تو کوئی دوسرا کیس بنا لیتے ہیں، اگر ایسا بھی کرنا ممکن نہ ہو تو کسی اور بہانے ملزم کو گرفتار رکھتے ہیں۔ ہفتوں یا مہینوں کے بعد گرفتار افراد کو چھوڑ بھی دیتے ہیں ورنہ عموماً جھوٹا، سچا ریفرنس بنا دیا جاتا اور پھر سالوں بعد پتا چلتا ہے کہ نیب کے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں۔ اعلیٰ عدالتیں حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ نیب کی تفتیش اور استغاثہ میں تو کچھ نہیں ہوتا اور یوں ملزموں کو چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن اس وقت تک نیب کے ستائے ان مظلومین کو نہ صرف معاشرہ میں بلکہ اُن کی اپنی عزت نفس کو اس حد تک ٹھیس پہنچائی جا چکی ہوتی ہے جس کی بحالی زندگی بھر ممکن نہیں ہو پاتی۔ بیچارے اساتذہ نے کیا جرم کیا ہو گا کہ ایک ڈی جی نے اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے اُنہیں عادی مجرموں کے طرح عدالت میں پیش کیا۔ اس سلوک کو کیا زندگی بھرکبھی یہ اساتذہ یا ان کے خاندان والے بھلا سکیں گے؟

چیف جسٹس نے اچھا کیا کہ اس مسئلہ پر سوموٹو لیا لیکن اُس ڈی جی نیب جس کی اپنی ڈگری مبینہ طور پر جعلی ہے اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اُسے استاد کی حیثیت اور اُن کے احترام کا بھی احساس نہیں، کے معافی مانگنے پر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ اور یوں یہ ڈی جی نیب جو پہلے بھی دوسرے کیسوں میں ملزمان کو ہتھکڑیاں لگا کر اُن کی تصویریں میڈیا کو فراہم کر چکا ہے، معافی مانگنے پر اپنے عہدہ پر قائم ہے۔ میری ذاتی رائے میں نہ صرف نیب کے ایسے افسران کو خود ہتھکڑیاں پہنا کر جیلوں میں بھیجنا چاہیے بلکہ حکومت اور سپریم کورٹ کو نیب کے قانون کا از سر نو جائزہ لے کر اُن شقوں کو ختم کرنا چاہیے جو نیب کے افسران کو فرعون بنا دیتی ہیں، جو نیب کو یہ اختیار دیتی ہیں کہ بغیر کسی ثبوت کے کسی بھی فرد کو گرفتار کر لیا جائے، جو شقیں کسی بے قصور اور معصوم فرد کی بے جا گرفتاری پر نیب اور اس کے افسران سے کوئی جواب طلبی نہیں کرتیں۔ نیب کے اس اختیار کو کہ وہ کسی بھی فرد کو انکوائری یا تفتیش کے دوران گرفتار کر سکتا ہے ،کا بار بار اور بے جا استعمال ہوا، اس لیے اس اختیار کا تو خاتمہ لازمی ہے۔ یہ اختیار صرف عدالت کو دیا جانا چاہیے جو کسی ملزم کے متعلق نیب کے پاس موجود شواہد کی بنیاد پر ہی نیب کو اجازت دے کہ وہ ملزم کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کر لے۔ نیب کی طرف سے کئی کئی ماہ تفتیش کے نام پر افراد کو گرفتار کر کے اپنے پاس رکھنے کا بھی کوئی جواز نہیں۔ موجودہ صورتحال میں نیب کا قانون انتہائی ظالمانہ ہے جس میں نیب اور اس کے افسران کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں لیکن اُن کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں۔ یہاں تو سپریم کورٹ اور چیف جسٹس خود کہہ چکے ہیں کہ نیب لوگوں کی پگڑیاں اچھالتا ہے۔ چیف جسٹس نے حال ہی میں ایک کیس کے دوران یہاں تک کہا کہ عدلیہ نیب کا پھیلایا ہوا گند صاف کرنے کے لیے نہیں بیٹھی۔ نیب کو ماضی میں بھی غلط استعمال کیا گیا اور اسے اب بھی غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ اپنی موجودہ حالت میں نیب جیسے ادارہ کو جاری رکھنا کسی شر سے کم نہیں ہو گا۔ اسے یا تو بند کر دیا جائے یا پھر اس کی جواب طلبی کا کوئی میکنزم بنایا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ احتساب کے نام پر بنایا جانے والا ادارہ خود اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کا ذریعہ نہ بن جائے اور کرپشن کے خاتمہ کے بجائے ایک زور آور کا روپ اختیار نہ کر لے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.