یہود و نصاریٰ اورمثنوی مولانا رومؒ۔۔۔(تین اقساط کا مجموعہ)

پوری دنیا یہود و نصاریٰ کی عقلمندی، سمجھداری اور عیاری سے پوری طرح واقف ہے۔ ان دونوں نے شروع ہی سے اسلام اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے اور تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی ہے۔ انکی سازشیں عیاں ہوتی ہیں مگر اس وقت جب یہ اپنا مقصد حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔ ان کی عیاریوں اور سازشوں کی وجہ سے ہی ہمارے پیارے رسولؐ نے ان کو مکّہ، مدینہ سے دور کردیا تھا۔ کلام مجید میں سورہ المائدہ (5آیت 51)میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف حکم دیا ہے کہ، ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بنائو۔یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا (یعنی کافر و مشرک)۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم (گنہگار) لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

حضرت عمرؓ کے دور کا مشہور واقعہ ہے کہ لوگوں نے ان کو شکایت بھیجی کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ایک یہودی کو مالیات کا سربراہ لگا دیا ہےوہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ آپؓ نے فوراً ہدایت بھیجی کہ اس کو ہٹا کر کوئی مسلمان تعینات کردیا جائے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا خط آیا کہ انھوں نے تلاش کیا مگر کوئی اچھا آدمی نہ ملا اس لئے اُس کو ہی کام کرنے دے رہے ہیں۔ یہ خط پڑھ کر حضرت عمرؓ غصّہ میں آگئے اور لکھا کہ اب لوگوں کی جرأت ہو گئی ہے کہ وہ امیرالمومنین کے احکامات کو نظرانداز کرکے اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں اور آگے لکھ دیا کہ یہودی فوت ہوگیا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو اب جرأت نہ ہوئی کہ حکم عدولی کرسکیں۔ یہودی کو ہٹا کر ایک مسلمان لگادیا اور اس نے بہت اچھے طریقےسے فرائض ادا کئے اور عوام بے حد خوش ہوگئے۔

دیکھئے اس دوستی میں ہم نے ترکی حکومت کو نقصان پہنچایا اور عرب دنیا اب تک ان کی غلام بنی ہوئی ہے اور فلسطین اور کشمیر وغیرہ کے تنازعات کے شکار ہیں۔ پچھلے 24 سال میں تین امریکی صدور کے ادوار میں 9 مسلم ممالک پر حملے ہوئے اور 11 ملین مسلمان شہید کردیئے گئے۔ ابھی حالیہ مثا ل شام کی ہے۔ آپ سوچئے کہ ہزاروں کلومیٹر دور ممالک امریکہ، فرانس اور انگلستان کو شام کی اندرونی سیاست سے کیا خطرہ ہے؟ خطرہ ان کو نہیں بلکہ ان کا پروردہ اور حواری اسرائیل چاہتا ہے کہ اسکے تمام پڑوسی اس کے غلام رہیں اور کمزور رہیں۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے وسط ایشیا کے ممالک کھوئے، ہم نے اسپین کی حکومت کھوئی اور اس وقت جتنے مسلم ممالک ہیں (سوائے ایران، ترکی کے) وہ کم و بیشتر انہی کے غلام ہیں۔ جتنے اہم مالیاتی ادارے ہیں وہ ان کے قبضہ میں ہیں، ذرائع ابلاغ اور تعلیمی اداروں پر وہ پوری طرح مسلط ہیں ۔ اور اللہ کا عتاب ایسےلوگوں پر ہے اور اس کا یہ فرمان ہے۔ ’’بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آسکتے، بہرے گونگے اندھے ہیں پس یہ دیکھ نہیں سکتے، بہرے اندھے ہیں پس یہ سمجھتے نہیں، اور ہم نے ان کے آگے ایک دیوار بنا دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانک دیا ہے پس وہ کچھ دیکھ ہی نہیں سکتے‘‘۔

لوگوں نے ہٹلر سے ایک بیان منسوب کیا ہے کہ ’’اگر میں چاہتا تو ایک یہودی کو زندہ نہ چھوڑتا مگر میںکچھ کو چھوڑ رہا ہوں کہ لوگ ان کی حرکات، اعمال دیکھ کر جان لیں کہ میں نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا ہے‘‘۔

ایسی اہم بات مولانا جلال الدین رومیؒ سے کس طرح پوشیدہ رہ سکتی تھی۔ آپ نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ کس طرح ایک یہودی وزیر نے عیسائیوں کے سرداروں میں پھوٹ ڈال کر ہزاروں لوگ مَر وادیئے۔ کچھ لوگ مثنوی مولانا روم کو فارسی زبان میں (نعوذ باللہ) قرآن مجید کہتے ہیں اور اسے الہامی کتاب کا درجہ دیتے ہیں جو بالکل مناسب نہیں۔ ہمارے پیارے رسولؐ خاتم النبیین تھے اور قرآن مجید آخری الہامی کتاب نازل کی گئی تھی ۔ آپ اس کو صوفیانہ کلام کہہ سکتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کے علامہ اقبالؒ کا کلام ہے۔ اب یہودی وزیر کا واقعہ تحریر کرتا ہوں۔ یہ میں نے بشکریہ ’’سُبک سیل مثنوی‘‘ از اسکواڈرن لیڈر (ر) ولی الدین المعروف بہ حضرت والی بھائی (والد محترم ایئرمارشل علی الدین صاحب) سے مستعار لی ہے۔

’’یہودیوں کے وزیر کا حسد۔ حاسد اپنے زہر سے دوسرے کی روح کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بالآخر ذلیل ہوتا ہے۔ حاسد بوئے دوست سے محروم رہتا ہے۔ (البتہ) وہ وزیر تو ایسا تھا کہ اس کے خمیر میں حسد بھرا پڑا تھا۔ اور باطل سے اس کی آنکھیں اور کان بھرے پڑے تھے یہاں تک کہ اس امید سے کہ اس کے حسد ڈنک سے آخر کا زہر مسکینوں کی جان میں پہنچے اور ان کی روح تک کو برباد کردے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جو کوئی حسد سے دیکھنے کی عادت ڈال لے تو اس کے ناک اور کان ضرور کٹتے ہیں۔ ناک تو ایسی ہونی چاہئے جو محبوب کی بو سونگھ کر اس خوشبو کے ساتھ اسکے کوچے تک پہنچ جائے اور جس میں یہ بو سونگھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ تو ایسا ہے کہ جیسے اس کی ناک ہی نہیں اور بو تو وہ بو ہے کہ وہی محبوب سے لگائو اور دین عشق کی بنیاد ہو جس نے بھی یہ بوئے پیرہن یوسف سونگھی اور اس کا شکر نہ کیا تو یہی کفران نعمت ہو کر محبوب سے بے بہرہ ہو کر اس کی ناک لے گیا۔ شکر کر اور شاکروں کا غلام ہوجا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو خود محبوب ہوتے ہیں یا محبوب کی بو خود بن جاتے ہیں ایسے زندۂ جاوید اور انوار حق سے پُر لوگوں کے آگے مرکر فدا ہو کر عمر جاوداں پاجا۔

نصاریٰ کا وزیر کے مکر کو سمجھ لینا۔ بدطینت کی بات بھی بد ہوتی ہے، حلوے میں لہسن، قند میں زہر یا خباثت اور گندگی سے آلودہ ہے۔ دین میں خود پرستی جمعیت کی بربادی کا باعث ہوتی ہے۔ مکار وزیر کی طرح رہزنی کا دم حکمت بھر کہ ہر مکرو غرور کا سر بالآخر نیچا ہوتا ہے تو لوگوں کو نماز اور نیکی سے مت روک ۔وہ کافر وزیر دین کا ناصح بن کر اپنامکر چلا رہا تھا کہ گویا فریب سے حلوے میں لہسن ملا رہا تھا جو صاحب ذوق لوگ تھے وہ اس کی باتوں میں لذت تو دیکھتے تھے لیکن تلخی سی بھی معلوم ہوتی تھی۔ وہ ایسے ملا ملا کردے رہا تھا ،نکتے بیان کرتا تھا کہ جیسے قند میں زہر ملا ملا کر دے رہا تھا تم ایسی باتوں پر مغرور اورنازاں نہ ہو جن کے پس پردہ سینکڑوں برائیاں ہوں جو بری طینت والا شخص ہو اس کی باتوں کو بھی برا مانو۔ وہ جو بھی کہتا ہے ایسا ہے جیسے کہ مردہ کی باتیں مگر مردے کی باتوں میں کیا زندگی ہو۔انسان کی بات تو ایسی نوعیت رکھتی ہے جیسے کہ اسکے ہی جسم کا حصہ ہو یا جیسے کہ روٹی کا ٹکڑا اسی مزے کا ہوتا ہے جیسا کہ پوری روٹی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ جاہل کی بات سے بھاگو یہ ایسے ہے کہ جیسے گھوڑے کے اوپر سبزہ۔ اب جو کوئی اس سبزہ پر بیٹھے گا تو یقینا وہ نجاست پر بیٹھا۔ لہٰذا اس کو اپنے فریب کی جاہلانہ بات کی گندگی سے پاک کرنا چاہئے تاکہ اس کی (محبت و خلوص کی) فرض نماز ضائع نہ ہو۔

پچھلے کالم میں یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور اس سلسلے میں سورۃ المائدہ میں بیان کردہ حکم الٰہی آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا وہیں سے کچھ آگے بڑھتے ہیں۔ یہودی بادشاہ اور اس کے مکّار وزیر کی کہانی جو مولانا رومؒ نے بیان کی ہے وہ بیان کرتا ہوں۔

…..ایسی ہی فضول باتوں میں پھنسا کر فرائض سے غافل کرکے یہ مکّار وزیر کچھ اس طرح جہالت پھیلاتا تھا کہ ظاہر میں جیسے سب کو کہے کہ چست ہوجائو اور فرائض پورے کرو اور اثر ان باتوں کا ایسا ہوتا تھا کہ اپنی جانوں کو سست کرلو یہ گویا ایسی بات ہے کہ اگرچہ چاندی کا ظاہر سفید ہوتا ہے اور نیا سا نظر آتا ہے لیکن ہاتھ اور کپڑے اس سے سیاہ ہوجاتے ہیں یا اگرچہ آگ اپنے شراروں سے سرخ رو نظر آتی ہے لیکن تم اس کے کاموں کو دیکھو کہ کیسا چیزوں کو سیاہ کردیتی ہے یا برق اگرچہ دیکھنے میں نور نظر آتی ہے لیکن اس کی خاصیت یہ ہے کہ آنکھوں کی بینائی بھی لے جاتی ہے۔

اب جو لوگ اس وزیر کے گرد جمع ہوجاتے ان میں سے کوئی صاحب ذوق اور واقف عالم نہ ہوتا تو اس وزیر کا قول اس کے لئے ایسا ہوجاتا جیسے گلے کا طوق اس طرح سے بادشاہ سے جدا ہونے کے بعد چھ ماہ تک وہ لوگوں کو خراب کرتا رہا اور حضرت عیسیٰ ؑکے تابعین کو تباہ کرتا رہا ۔ اپنے دل اور دین کو کلی طور پر ان لوگوں نے اس کے سپرد کردیا اس شخص کے احکامات ’’ہاں اور ناں‘‘ پر خلق خدا جان دیتی رہی۔

بادشاہ اور وزیر میں نامہ و پیام جاری تھا جس سے بادشاہ کو اطمینان تھا۔ آخر کار بادشاہ نے ٹھانی کہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے ان نصرانیوں کی خاک ہوا میں اڑا دے۔ بادشاہ نے یہ کرنے سے پہلے وزیر کو لکھا کہ اے میرے مقبول بارگاہ اب وقت آگیا ہے کہ میرے دل کا بوجھ ہلکا کر۔ اب دیدہ و دل کو تیرے انتظام کا انتظار ہے۔ اگر فرصت ہو تو اس فکر سے آزاد کردے اس وزیر مکار نے لکھا کہ اے بادشاہ اس کام میں تھوڑی دیر ہے تاکہ میں دین عیسیٰ کے پیروکاروں میں فتنہ ڈال دوں۔

قوم عیسیٰ میں جب یہ کھینچ تان چل رہی تھی اس وقت اس کے بارہ امیر حکمراں تھے ہر فریق اپنے امیر کی اطاعت کرتا تھا اور امیر خود لالچ میں خادم بنے ہوئے تھے وجہ یہ تھی کہ اس قوم کے یہ امیر سب کے سب اس وزیر بدنشان کے غلام ہوگئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کا اعتماد اس کی بات پر تھا اور ہر ایک اس کی چالوں کی پیروی کررہا تھا۔ حال یہ تھا کہ اگر وہ کہتا کہ جان دے دو تو اس کے آگے ہر وقت ہر گھڑی ہر ایک امیر جان دینے کو تیار تھا۔ اس طرح اس یہودی نے سب کو خراب کردیا تھا اور ان کے درمیان اپنے مکر و حیلہ سے فتنہ ڈال دیا تھا۔ فریبی وزیر کے متضاد دینی احکامات اس وزیر نے ہر امیر کے نام طویل خط میںلکھے اور ہر ایک خط میں جدا مسلک بیان کیا تھا جس کی پیروی کریں ، اس کے یہ حکم نامے ایک دوسرے سے جدا تھے اور ان میں ایک دوسرے سے پائوں تک اختلاف تھا (مگر اپنی جگہ صحیح معلوم ہوتے تھے)

(1) ایک کو لکھا تھا کہ بھوکا رہنا اور ریاضت کرنا توبہ کا رکن ہے اور رجوع الی اللہ کی شرط ہے۔ (2) دوسرے کو لکھا کہ ریاضت بیکار ہے اس راہ حق میں مخلصی تو سوائے سخاوت کے مل ہی نہیں سکتی۔ (3) ایک میں لکھا کہ تمہاری بھوک اور سخاوت شرک ہے تمہاری طرف سے معبود کی جانب سوائے توکل کے کہ وہی تسلیم تمام ہے باقی سب کچھ خواہ غم ہو یا راحت مکر دائمی ہے، دغا ہے۔(4) ایک میں لکھا کہ خدمت اور کام کرنا لازمی ہے ورنہ توکل کی بات کرنا ایک کھلی تہمت ہے۔ (5) ایک میںلکھا کہ امر و نہی یعنی اچھی بات کی ترغیب اور برائی سے روکنا بھی زمانہ کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنی عاجزی کے لئے ہے تاکہ ہم ان میں اپنا عجز دیکھیں اور قدرت حق کو سمجھیں۔ (6) ایک میں لکھا کہ اپنا عجز مت دیکھو ایسا عجز کرنا تو کفران نعمت ہے اپنی قدرت کو دیکھو کہ یہ قدرت اسی کی عطا کردہ ہے اپنی قدرت کو اس کی نعمت سمجھو کہ اسی سے ہے۔(7) ایک میں لکھا کہ دو سے اور دوئی سے گزر جا۔ ہر شے جو وحدت کے علاوہ دل میں سمائی ہے، بت ہے۔ (8) ایک میں لکھا کہ اس شمع عقل و فکر کو مت بجھا کہ یہ طریقہ ٔ نظر سب کے لئے ایک شمع کی طرح آئی ہے اور اگر تو نظر اور خیال سے گزر جائے گا تو گویا تو نے آدھی رات ہونے پر ہی شمع وصال بجھا دی۔ (9) ایک میں لکھا کہ بجھا دے اس عقل کی شمع کو تاکہ ایک کے بدلے میں لاکھ ملیں۔کیونکہ شمع عقل بجھانے سے روح بڑھتی ہے اور تیرا محبوب یہ ثابت قدمی دیکھ کر خود تیرا مجنوں ہو جاتا ہے۔(10) ایک میں لکھا کہ جو کچھ حق نے دیا ہے وہ ایجاد حق تجھ پر شیریں ہے۔ یہ سب کچھ تیرے لئے آسانی کی ہے تاکہ تو اسے پکڑ لے۔ تو کیوں فضول اپنے کو بے قراری میں ڈالتا ہے۔(11)ایک میں لکھا کہ اپنی خودی چھوڑ دے۔ یہ تیری طبع جس چیز کو پسند کرتی ہے وہ رد ہے اس سے منہ موڑ لے۔

اس مکار وزیر نے اس طرح مختلف راہیں آسان بیان کیں۔ اور ہر ایک نے اپنا مذہب جان کی طرح اپنا لیا۔ لیکن حق کی راہ میں اگر یہ آسانی ہوتی تو ہر یہودی اور کافر بھی پھر حق آگاہ ہوتا۔

(12) ایک کو لکھا کہ آسان یہی بات ہوتی ہے کہ دل کی حیات، روح کی غذا بن جائے ذوق فنا جس گھڑی فنا ہو تو بنجر زمین کی طرح کھیتی نہیں اگتی، سوائے پشیمانی کے اس کا کیا پھل ہے۔ سوائے خسارے کے اس عمل کا کیا نفع ہے۔ جس بات کا انجام یعنی عاقبت اچھی نہیں ہوتی، آسان نہیں ہوتی، اسی کا نام عاقبت کی تنگی ہے۔ تو تنگی اور فراخی کو جان لے۔ اور پھر دونوں کے جلوے دیکھ۔ (13) ایک کو لکھا کہ مرشد تلاش کر، عاقبت جو ہے وہ اپنے ذاتی کمالات سے نہیں ملتی۔ اگرچہ پچھلی امتوں نے عاقبت کی فہم کی تھی لیکن آخر کار ذلت میں پھنسے۔ عاقبت بینی اپنے ہاتھ کی بنائی کی طرح آسان نہیں ہوتی وگرنہ مذہبوں میں آخر اختلاف کیوں ہوتا۔(14)ایک کو لکھا کہ تم ہی مرشد ہو مجھے مرشدوں کی پہچان ہے اس لئے کہتا ہوں کہ تم مرشد ہو۔ تم مرد بنو۔ اور لوگوں کے لئے کھیل مت بنو تم اپنے راستے چلو اور سرگردان مت پھرو۔ (15)ایک کو کہا کہ سب کچھ جو دیکھتے ہو ایک ہی ہے اس کو جو کوئی دو دیکھتا ہے وہ احول ہے، بھینگا ہے۔(16) ایک کو کہا کہ سو کیسے ایک ہوسکتے ہیں۔ یہ خیال تو ایک پاگل کا ہی ہوسکتا ہے۔ ہر قول دوسرے کی ضد ہوتا ہے۔ بتائو کہ زہر اور شکر ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں۔ دن اور رات کو دیکھو، کانٹے اور پھول کو دیکھو، پتھر اورموتی کو دیکھو، کہ معانی میں بھی اختلاف ہے اور صورت میں بھی۔ اگر زہر اورشکر کے چکر سے تو نہیں رب قدیر سے پنجہ آزمائی کیسی۔ قادر مطلق کے آگے سب افسوں ٹوٹ جاتا ہے۔ عقل و نفس کی مکاری باطل ہے فریب کے سو روپ ٹوٹے عاجز دل فضل کے حقدار ہوتے ہیں۔

(ذات سے بے بہرہ) بادشاہ کی طرح یہ وزیر بھی نادان اور غافل تھا۔ اس رب قدیر سے پنجہ آزمائی کررہا تھا۔ (حالانکہ) وہ سب مخلوق کا داتا، زندہ، اور قدرت والا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ یگانہ و بصیر ہے۔ ایسے قادر خدا سے جو سینکڑوں عالم ایک دم میں عدم یعنی نابود سے ہست میں لاتا ہے۔

پچھلے دو کالموں میں آپ کو یہودیوں کی عیاری اور مکاری کے بارے میں مثنوی مولانا رومؒ میں بیان کردہ حکایت بتا چکا ہوں۔ یہ حکایت بہت طویل ہے اور قابل مطالعہ بھی ہے مگر میں آج اس کالم میں اس کو مختصر کرکے ختم کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ کچھ ملکی حالات پر بھی لکھ سکوں۔

’’مولانا فرماتے ہیں! افسوس کہ تو نے آدمؑ کے مسجود ہونے کو نہیں سمجھا۔ آخر کو اے ناخلف تو آدمؑ کی اولاد ہے تو کب تک اس ذلت و پستی کو اپنا شرف سمجھے گا۔ کبھی کہتا ہے کہ میں عالم کو فتح کرتا ہوں اس جہاںکو اپنی خودی سے بھر دوں گا اگر جہان پورے کا پورا بھی تیری برف سے ڈھک جائے تب بھی سورج کی گرمی ایک نظر سے اس کو پگھلا دے گی ایسے بوجھ اگر سو ہزار بھی ہوں تو حق کی ایک چنگاری ان کو نیست کرسکتی ہے وہ چاہے تو کسی خیال کو عین حکمت کردے چاہے تو زہر کے پانی کو شربت کردے ویران جگہوں میں خزانے پوشیدہ کردے کانٹے کو گل بنادے اورجسم کو روح کردے بدگمان شخص کو محکم یقین عطا کردے دشمنی کو دوستی میں تبدیل کردے آگ میں ابراہیم ؑ کو پرورش دے روح کو خوف سے سلامتی اور امن بخشے۔

اس سبب اور نتیجہ کے تخیل سے تو میں سودائی ہوجاتا ہوں، دنیا کو محض ایک خیال کی مانند سمجھتا ہوں۔ میں بہت سبب سازی میں سرگرداں رہا۔ اور سبب سوزی کرکے حیران بھی ہوں۔ (مکروفریب نفس کی حد نہیں ہوتی جیسے کہ) جب مکار اور بداعتقاد وزیر نے دین عیسیٰ ؑ میں فساد ڈال دیا۔ تو ایک اور مکر کھیلا۔ وعظ چھوڑ کر اب خلوت نشین ہوگیا۔ اس نے مریدوں کو جدائی اورشوق دیدار کی پریشانی میں ڈال دیا۔ وہ خلوت میں چالیس پچاس دن رہا۔ خلقت اس کے شوق میں اوراس کے فراق اس کے حال، اس کی باتوں اور ا س کے دیدار کی حسرت اور بڑھی۔ سب لوگ اس کی جدائی میں آہ و زاری کر رہے تھے۔ اور وہ تنہائی میں ریاضت سے تباہ ہورہا تھا۔ لوگ کہنے لگے کہ بغیر تیرے ہمیں کوئی روشنی نہیں ملتی۔ جیسے کوئی نابینا بغیر لاٹھی کے ہوجاتا ہے مہربانی کرکے اور خدا کے واسطے اب اس سے زیادہ اپنے سے ہمیں جدا نہ کر ہم بچوں کی طرح ہیں اور تو ہماری دایہ کی طرح ہے۔ ہمارے سروں پر تیرا سایہ کرم ہے وہ بولا کہ میری جان دوستوں سے دور نہیں۔ لیکن خلوت سے باہر آنا دستور نہیں۔ اس پر وہ امیر علماء لوگوں کی سفارش کرنے لگے اور وہ مرید اپنے اصرار پر زور دینے کیلئے رونے لگے۔ کہ اے ہمارے کرم فرما، یہ کیا بدبختی ہمارے لئے ہوئی ہے۔ ہم دین سے بھی اور دل سے بھی یتیم ہوگئے ہیں۔ آپ بہانہ کرتے ہیں اور ہم درد سے سوزدل سے سرد آہیں بھرتے ہیں۔ہمیں تو آپ کی اچھی باتیں سننے کی عادت ہوگئی ہے ہم آپ کی حکمت کا دودھ پی چکے ہیں۔ بہر خدا یہ ظلم ہم پر نہ کیجئے ہم پر مہربانی کیجئے۔ آج کی بات کل پر نہ ٹالئے کیا آپ کے دل کو یہ بات پسند ہے۔ کہ آپ کے بیدل آپ کے بغیر یوں ناکام رہیں خشکی پر مثل مچھلی کے تڑپیں۔ آپ بند اٹھائیں اور نہر سے پانی آنے دیں اور آپ جیسا دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ خدا کے واسطے خلقت کی فریاد رسی کیجئے۔

وہ بولا کہ ہاں اے عشق کی باتیں کرنے والو۔ وعظ اور بیان کو دل و جان سے سننے کی تمہیں جستجو ہے۔ اپنی کمینی حس کے کانوں میں اب روئی ٹھونس لو۔ حس کی قید وبند کو اب اپنی آنکھوں سے بھی باہر نکال دو، یہ سننے کی حس، خود باطن کے کانوں کی روئی بن کر رازوں سے تمہیں دور رکھ رہی ہے۔ اگر تمہارا باطن ہے، تو اس بوجھ کو بھی ہلکا کرنا ہے۔ بے حس اور بے فکر ہو جائو۔ تاکہ ارجعی (یعنی اے نفس مطمٔنہ اپنے رب کی طرف رجوع ہو) کا خطاب سن سکو۔ جب تک تم باتوں اور خیالات میں لگے رہو گے تو تمہیں اچھی باتوں کی خوشبو کہاں ملے گی۔ سیربیرونی صرف قول و فعل تک کی بات ہے سیر باطن البتہ آسمانوں تک پہنچاتی ہے حس جسمانی کو دیکھ کر خشکی تک ہی رہ گئی اور موسیٰ ؑکی جان نے دریا میں پائوں ڈالا اور پار ہوا جسم خشک کی سیر نے خشکی میں ہی پھنسا دیا۔ سیر جان نے اپنا پائوں دریا کے دل میں ڈال دیا۔ جب خشکی کے اندر ہی عمر کٹ گئی تو کبھی کہسار میں رہے کبھی صحرا میں۔ کبھی دشت میں (پھر) تجھے آب حیوان کس طرح ملے تو کب چاہتا ہے کہ موج دریا کو چیر دے یہ موج خاکی بیماری فہم و وہم اور فکروں میں رہ کر سکر سے دور رہتا ہے اسی لئے اس مستی عشق اور جام عشق سے بے بہرہ ہے یہ ظاہری باتیں تو مثل گردوغبار کے جلد اڑ جانے والی ہیں۔ اسلئے اے ہوش مندو کچھ عرصے خاموش رہو۔

وزیر مکار کی باتیں سن کر اب مریدوں کا اصرار اور بڑھا۔ اور بولے کہ اے دلیلیں اور رکاوٹیں ڈھونڈنے والے حکیم دانا! ہمارے ساتھ یہ ظلم اور فریب نہ کرو۔ وزیر نے کہا۔ کہ اپنی دلیلیں اور حجتیں بند کرو۔ اور میری اس نصیحت کو جان و دل میں راستہ دو۔ جب میں تمہاری نگاہوں میں امین ہوں تو پھر مجھ پر الزام کیا رکھتے ہو۔میں اگر زمین کو بھی آسمان کہوں تو کیا ہوا اگر میں صاحب کمال ہوں تو پھر میرے کمال سے انکار کیا معنی، اور اگر نہیں ہوں تو پھر یہ زحمت اور تکلیف کیوں اٹھاتے ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ اس خلوت سے باہر آئوں کیونکہ میں اپنے باطنی احوال میں محو ہوں۔ سب بولے کہ اے وزیر اس سے کیسے انکار ہے کہ آپ صاحب کمال ہیں لیکن ہماری باتوں کو آپ اغیار کی باتیں نہ سمجھیں۔ آپ کے فراق میں ہماری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔

اس یہودی وزیر نے ان لوگوں کو اندر سے آواز دی کہ اے مریدو! میری جانب سے یہ جان لو کہ مجھے حضرت عیسیٰؑ نے ایسا پیغام دیا ہے کہ تمام دوستوں اور اپنوں سے اکیلے میں رہو۔ گوشہ نشین ہوکر اکیلےبیٹھ جائو۔ اپنے جسمانی وجود سے بھی تنہائی اختیار کرلوں۔ اس کے بعد بات چیت کا حکم نہیں ہے۔ اے دوستو! بس رخصت ہوجائو۔ سمجھو کہ میں مردہ ہوں اور اپنا سامان چوتھے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑکے پاس لے جائوں تاکہ میں کرہ ہوا سے اوپر، آگ والے آسمان سے بھی اوپر رہوں، اور ایندھن کی طرح اس دنیوی محنت و مشقت میں نہ جلوں۔ اب میں اس کے بعد چوتھے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑ کے پہلو میں بیٹھوں گا۔

اس کے بعد اس نے ان عیسائی امیروں کو بلا کر ایک ایک سے تنہائی میں بات کی اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بتایا کہ بس تم ہی عیسوی دین میں اللہ کے نائب اور میرے خلیفہ ہو۔ یہ دوسرے امیر تمہارے تابع ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے ان سب کو تمہارا پیرو بنا دیا ہے۔ اگر ان امیروں میں سے کوئی سرکشی کرے تو اس کو گرفتار کرکے یا تو مار ڈالو یا قید میں ڈال دو لیکن جب تک میں زندہ ہوں کانوں کان کسی کو یہ بات معلوم نہ ہو جب تک میں نہ مرجائوں تم سب کا سردار بننے کی کوشش مت کرنا۔ اورنہ شاہی اور اپنے اقتدار کا ذکر کرنا اب یہ دفتر کتب اور حضرت عیسیٰ ؑ کے احکام، صاف طور پر ایک ایک کرکے اپنی قوم کے سامنے پڑھنا۔ اس طرح اس مکار وزیر نے ہر ایک کو کتابوں کا ایک مجموعہ دے دیا ان کتابوں کا مضمون اور مقصد ایک دوسرے کے خلاف تھا۔ ان کتابوں کی عبارت آپس میں مختلف تھی۔ جیسے کہ حروف الف، با، تا ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس دفتر کتب کا حکم اس دفتر کے خلاف تھا۔ اس اختلاف کا بیان ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں۔ اے پسر! ہم اس کی تفصیل بتا چکے ہیں کہ یہ سر سے پیر تک ایک دوسرے کی ضد تھے۔اس کے بعد وزیر نے چالیس روز تک دروازہ بند رکھا۔ اور اپنے آپ کو قتل کرکے اپنے وجود سے چھٹکارا حاصل کیا۔ جب لوگوں کو اس کی موت کی خبر ہوئی تو اسکی قبر پر قیامت سی برپا ہوگئی۔ بے شمار لوگ قبر پر جمع ہوگئے اور اس کے غم میں کپڑے پھاڑنے لگے بال نوچنے لگے۔ ان میں عرب، ترک، رومی، کرد سبھی شامل تھے۔ تعداد خدا ہی جانتا ہے ۔ ان لوگوں نے فرط غم سے اس کی مٹی اپنے سروں پر ڈالی اور اس کے درد و غم کو اپنا علاج درماں سمجھا۔ ان لوگوں نے ایک مہینے تک اس کی قبر پر اپنی آنکھوں کو خون رلایا۔ اس کی جدائی میں بادشاہ لوگ، بڑے چھوٹے سب نے آہ و زاری کی۔

ایک مہینہ کے بعد لوگوں نے کہا کہ اے بزرگو! سرداروں میں سے کون ان کا جانشین ہے تاکہ ہم اس کو اپنا امام مان لیں اور اپنے کام اس کے ذریعے سے چلائیں۔ ہم سب اس کی اطاعت کریں۔ اس کی بیعت کرکے اسکا سہارا پکڑیں۔آخرش ہم دوستوں کے اس مجمع کی وفاداری کی وجہ سے جو اس داستان کو دل سے سن رہے ہیں۔ اس قصہ کے اختتام پر آگئے ہیں یعنی یہ کہ وہ سب وزیر پیشوا کے مرنے کے بعد اس کی جگہ کوئی نائب چاہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.