ایک سرکاری افسر کو عہدے سے ہٹانا پارٹی منشور کی خلاف ورزی؟

(انصار عباسی)
وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے سابق شوہر خاور مانیکا کے مبینہ دبائو پر پاک پتن کے ڈی پی او کو غیر مہذب انداز سے عہدے سے ہٹانا نہ صرف پی ٹی آئی کے منشور اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے حوالے سے پہلی واضح خلاف ورزی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے انیتا تراب کیس میں سنائے گئے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ’’غیر پیشہ ورانہ اور بدتمیز‘‘ شخص قرار دیتے ہوئے ایک سینئر افسر کی جانب سے نئے وزیر ریلوے شیخ رشید کے تحت کام سے انکار کے ایک دن بعد، ڈی پی او پاک پتن کے حوالے سے میڈیا میں آنے والے واقعے نے عمران خان کی حکومت کے ساتھ بڑی امیدیں وابستہ کرنے والی ملک کی سویلین بیوروکریسی کی حوصلہ شکنی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے منشور میں پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیوروکریسی بشمول پولیس کو سیاست سے پاک کرے گی۔ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ افسران کے عہدے کی مدت کا تحفظ کیا جائے گا اور ساتھ ہی اچھی طرز حکمرانی متعارف کراتے ہوئے قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ملک میں پولیس کے نظام کے حوالے سے خصوصی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے منشور میں کہا گیا تھا کہ ہم پولیس کو سیاست سے پاک کریں گے اور خیبرپختونخوا کی طرح کا کامیاب ماڈل پیش کریں گے، اس پر ملک بھر میں عمل کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پولیس کے پاس ضروری ساز و سامان نہیں، تربیت خراب ہے، سیاست بھری ہوئی ہے اور یہ گہرائی تک کرپٹ ہو چکی ہے۔ ہر آنے والی حکومت نے پولیس میں اصلاحات کو نظرانداز کیا ہے تاکہ پولیس فورس کو سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ پارٹی نے پولیس میں اصلاحات لانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کہ پولیس میں بھرتیوں کے نظام کو پیشہ ورانہ بنایا جائے گا اور ان کی کیریئر مینجمنٹ کی جائے گی اور یہ یقینی بنایا جائے گا کہ پولیس کے تمام معاملات بشمول بھرتی، پوسٹنگ اور تبادلوں سمیت تمام معاملات سیاست سے پاک ہوں۔ لیکن پاک پتن کے واقعے نے پی ٹی آئی کے اپنے ہی وعدوں کے ہر لفظ کی خلاف ورزی کی ہے۔ مبینہ طور پر ڈی پی او پاک پتن کا اسلئے تبادلہ کیا گیا کیونکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کے سابق شوہر خاور مانیکا کو تیز رفتاری کی وجہ سے روکا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، پولیس نے 23؍ اگست کو خاور کو چیک پوائنٹ پر روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے۔ پولیس نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا اور انہیں روکنے میں کامیاب ہوئے۔ خاور نے مبینہ طور پر پولیس کے ساتھ بدتمیزی کی۔ بعد میں پنجاب کے وزیراعلیٰ نے جمعہ کو مبینہ طور پر ڈی پی او رضوان گوندل کو طلب کیا انہیں خاور مانیکا کے پاس جا کر ان سے معافی مانگنے کیلئے کہا۔ ڈی پی او نے انکار کیا جس پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ پنجاب کے آئی جی پولیس کے حوالے سے میڈیا میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ افسر کو پولیس اہلکاروں کے ایک شہری کے ساتھ بدسلوکی پر ہٹایا گیا ہے۔ لیکن آئی جی پولیس نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ ’’شہری‘‘ مانیکا تھا۔ جیو نیوز کی ر پورٹ کے مطابق، مانیکا نے تردید کی ہے کہ ان کے یا ان کے اہل خانہ کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تھا۔ ڈی پی او پاک پتن کا جو واقعہ میڈیا میں آیا ہے وہ سپریم کورٹ کے انیتا تراب کیس میں وضوع کردہ اصولوں کے بھی منافی ہے۔ انیتا تراب کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ جب قانون کے تحت کسی عمومی عہدے کے مدت مقرر کی گئی ہے تو ایسے عہدے کی مدت کا احترام کرنا چاہئے اور اسے تبدیل نہیں کرنا چاہئے ماسوائے اس کیلئے کوئی ٹھوس وجوہات موجود ہوں جنہیں تحریری طور پر پیش کیا جانا چاہئے اور ان پر عدالتی سطح پر غور بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی کیس میں سپریم کورٹ نے حج کرپشن کیس کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی عہدے پر سرکاری ملازم کی پوسٹنگ کی عمومی مدت تین سال ہے اور یہ رول آف بزنس کے رول نمبر 21؍ کے مطابق ہے، اس پر عمومی حالات میں عمل کرنا چاہئے، ماسوائے مجاز اتھارٹی کی رائے میں یہ مدت ختم ہونے سے قبل ملازمت کیلئے تبادلے کا اقدا م ضروری ہو جائے۔ سپریم کورٹ نے سب کیلئے یہ واضح کیا تھا کہ سول سرونٹس سرکاری ملازمین ہیں اور اسلئے انہیں صرف قانون کے مطابق اور عوامی مفاد میں فیصلے کرنے کی اجازت ہے۔ فیصلہ سازی میں مشیر کی حیثیت سے یا پھر منتظم یا قانون نافذ کرنے والوں کی حیثیت سے، وہ سیاسی ایگزیکٹو کے تابع نہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین پر لازم ہے کہ وہ آئین اور قانون پر کاربند رہیں۔ سپریم کورٹ نے انیتا ایوب کیس میں سرکاری ملازمین کو سیاست سے بچانے کے لئے مندرجہ ذیل اصول وضع کیے تھے۔ (1) تقری، برطرفی اور ترقی: تعیناتی، برطرفی اور ترقیاں قانون کے مطابق ہونی چاہئے اور اس کیلئے قواعد بنائے جائیں، جہاں ایسا کوئی قانون یا قاعدہ موجود نہ ہو اور معاملہ صوابدید پر ہو تو ایسی صوابدید پر عوامی مفاد میں منظم طورپر شفاف اور قابل قبول انداز میں عمل ہونا چاہیے۔ (2) تقرری کی مدت، تعیناتی اور تبادلہ: اگر قانون میں کسی پوسٹنگ کیلئے معمول کی مدت مخصوص ہو یا اس حوالے سے قواعد بنے ہوئے ہوںتو ایسی مدت ملازمت کا احترام کیا جانا چاہیے اور اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سوائے انتہائی مجبوری کے، جسے تحریری طور پر ریکارڈ کرنا چاہیے اور یہ عدالتی طور پر قابل جائزہ بھی ہو۔ (3) غیرقانونی احکامات: سرکاری ملازمین کی سب سے پہلی وابستگی قانون اور آئین سے ہوتی ہے۔ وہ اپنے بالادست کے ایسے احکامات ماننے کے پابند نہیں ہیں جو غیرقانونی ہوں یا تسلیم شدہ طریقہ کارسے مطابقت نہ رکھتے ہوں، اس کے بجائے ایسی صورتحال میں انہیں لازما اپنی رائے ریکارڈ کرانی چاہیے اور اگر ضروری ہو تو اختلاف بھی کرنا چاہیے۔(4) او ایس ڈی: افسران کو او ایس ڈی کے طور پر تعینات نہیں کرنا چاہیے، سوائے انتہائی ضروری وجوہات کی بنا پر، جسے لازمی طور پر تحریری صورت میں ریکارڈ پر لاناچاہیے اور یہ قانونی طور پر قابل جائزہ بھی ہو۔ اگر کسی افسر کو او ایس ڈی تعینات کرنا ہی ہے تو ایسی تعیناتی ممکنہ کم سے کم مدت کے لئے ہو اور اگر اس کے خلاف انضباطی انکوائری چل رہی ہو تو ایسی انکوائری کو جلد از جلد مکمل کرناضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ اگرچہ اس بات سے آگاہ ہے کہ مذکورہ بالا معاملات ریاستی مشینری کی انتظامیہ اور فیصلہ سازی سے متعلق ہیں لیکن ہم نے اس ضرورت کا ادراک کیا ہے اور اس کو یقینی بنایا ہے کہ تقرری کی مدت، تعیناتیوں، ترقیوں اور تبادلوں سے متعلق فیصلے قواعد کی بنیاد پر ہوں اور ناانصافی کے زیر اثر یا حتمی یا بلاورک ٹوک صوابدید پر مبنی نہ ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.