قانون اور آئین کے سینئر ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بننے کیلئے مجموعی رکنیت کی اکثریت (172؍ ارکان) کی حمایت کی شرط لازمی نہیں اور ایک امیدوار کے پاس موجودہ اور ووٹنگ ارکان کی اکثریت ہے وہ وزیراعظم بن سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں، قومی اسمبلی کے دو حلقوں پر الیکشن ملتوی کر دیا گیا تھا اور اب تک کے اعلانات کے مطابق، 9؍ نشستیں خالی ہوں گی اور اس طرح 331؍ ارکان موجود ہوں گے اور قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے وقت ووٹنگ کریں گے۔ اس صورت میں، اتحادی 166؍ ارکان کے ساتھ وزیراعظم کا انتخاب کر سکیں گے۔ جو لوگ نشستیں خالی کریں گے ان میں عمران خان (چار سیٹیں) چوہدری پرویز الٰہی (دو سیٹیں)، پی ٹی آئی کے طاہر صادق (ایک نشست)، پی ٹی آئی کے غلام سرور خان (ایک نشست)، پرویز خٹک (ایک سیٹ، لیکن وہ صوبائی نشست رکھیں گے حالانکہ ان کی پارٹی انہیں مرکز میں لانا چاہتی ہے)۔ اگر وہ قومی اسمبلی میں آتے ہیں تو ٹوٹل نشستیں 332؍ ہو جائیں گی اور اکثریت کیلئے 167؍ ارکان درکار ہوں گے۔
ن لیگ کے رکن اور سابق وزیر قانون زاہد حامد نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 91؍ کے تحت قائد ایوان کے انتخاب کے دن پہلے رائونڈ میں امیدوار کو قومی اسمبلی کی مجموعی رکنیت کی اکثریت حاصل کرنا ہوگی جو 172؍ ہے۔ لیکن اگر کوئی بھی سادہ اکثریت حاصل نہ کر پایا تو دوسرے رائونڈ میں دو امیدواروں میں سے جس نے پہلے رائونڈ میں زیادہ ووٹ لیے ہوں گے وہ دوبارہ مقابلے میں حصہ لے گا اور موجود اور ووٹنگ ارکان کی اکثریت حاصل کرنے والا وزیراعظم بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دوسرے رائونڈ میں دونوں امیدوار برابر ووٹ لیتے ہیں تو تیسرا رائونڈ بھی ہو سکتا ہے، یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کوئی ایک امیدوار زیادہ ووٹ نہ لے۔ سینئر قانون دان عابد حسن منٹو کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے الیکشن کیلئے صرف سادہ اکثریت حاصل کرنا ضروری نہیں، ایوان میں موجود ارکان پارلیمنٹ کی اہمیت اس وقت ہوگی جب وزیراعظم کے الیکشن کا دن ہوگا۔
اگر نیشنل اسمبلی میں 200؍ ارکان وزیراعظم کے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو ان 200؍ میں سے جس نے زیادہ ووٹ لیے وہ وزیراعظم بن جائے گا۔ سینئر قانون دان وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ قائد ایوان کے انتخاب کے دن جتنے ارکان اسمبلی میں موجود ہوں گے وہی اپنے اکثریتی ووٹ کے ساتھ وزیراعظم کا انتخاب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سادہ اکثریت کے حصول کی کوئی شرط نہیں۔ ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق، اس وقت پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 154؍ ہے، ق لیگ کے 3، جی ڈی اے 2 جبکہ اے ایم ایل کا ایک رکن ہے، اس طرح اتحادیوں کی تعداد 160؍ ہو جاتی ہے۔ یہ مشکل صورتحال ہوگی اور پی ٹی آئی کو دیگر پارٹیوں کو بھی ضرورت ہوگی، اگر بی این پی ایم (چار سیٹیں)، بی اے پی (پانچ سیٹیں) جے ڈبلیو پی (ایک سیٹ) بھی پی ٹی آئی کے اتحاد کی حمایت کریں تو مجموعی قوت 170؍ ہو جائے گی۔ اگر ایم کیو ایم بھی اس اتحاد میں شامل ہو جائے تو مجموعی قوت 177؍ ہو جائے گی۔ صرف پی ایم ایل ق، اے ایم ایل اور جی ڈی اے کے ساتھ حکومت قائم کرنا پی ٹی آئی کیلئے مشکل ہوگا۔
حمزہ شہباز شریف لاہور سے واضح برتری سے کامیاب
مخالفین کی قیاس آرائیاں اور وسوسے دم توڑ گئے، حمزہ شہباز لاہور پہنچ گئے
ملک سیلاب میں ڈوب رہا ہے اور حکومت سارا زور لیگی کارکنوں پر کریک ڈاؤن میں صرف کر رہی ہے: حمزہ شہباز
اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم,عمل نہ ہوا تو سینیٹ انتخابات ملتوی
اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
اڈیالہ جیل میں عمران خان سمیت قیدیوں سے ملاقات پر دو ہفتے کی پابندی ختم
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑکی کے قتل کی ویڈیو وائرل: ’جو کچھ ہوا گھر میں ہی ہوا، کوئی بھی فرد شک کے دائرے سے باہر نہیں‘
مولی دی میگپائی: وہ پرندہ جس کی دوستی کتے سے کرائی گئی اور اب وہ جنگل جانے پر راضی نہیں
امریکہ میں میگا ملینز لاٹری میں 308 ارب روپے(ایک ارب دس کروڑ ڈالر) کا جیک پوٹ جیت لیا گیا
لہروں پر ڈولتا ’ڈالی‘، مے ڈے کال اور وہ تصادم جس نے بالٹی مور کے مشہور پل کو تباہ کر دیا
وفاقی حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان
آئی بی اے میں طلبا کا فلسطینی جھنڈوں کے ساتھ عظیم خاموش احتجاج؟
اکستان کیخلاف امریکی اسلحے کا پھر استعمال، ثبوت منظرعام پر آگئے