متنازع انتخابات میں کس کی ہار؟

(حماد غزنوی) بین الاقوامی کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائرز کے متعارف ہونے سے پہلے بھارت شاید ہی کوئی ہوم سیریز ہارا ہو۔ بھارتی جیت کا فارمولا بہت سادہ ہوتا تھا، اپنے بہترین بیٹسمین کا آئوٹ ’’پی‘‘ لیا جائے اور مخالف ٹیم کے بہترین بیٹسمین کو غلط آئوٹ دے دیا جائے۔ اگر مخالف ٹیم سخت جان ہوتی تو سروپ کشن اور راما سوامی جیسے ایمپائروں کے ترکش میں اور بھی کئی تیر تھے، کسی بہترین بائولر کی بلاوجہ نو بال دے کر اُس کا ردھم خراب کیا جاتا یا اُس پہ وکٹ کے نازک حصہ پر بھاگنے کے جرم میں پابندی لگا دی جاتی۔ اس طرح ’’بھگوان کی کرپا‘‘ سے عظیم بھارتی کرکٹ ٹیم اکثر ہوم سیریز میں فاتح قرار پاتی تھی اور اگر مہمان ٹیم بہت ہی ڈھیٹ نکلتی اور ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود جیت کی دہلیز پہ پہنچ جاتی تو اس کا بھی ایک ’’معقول‘‘ انتظام موجود تھا، یعنی صبح جب دونوں ٹیمیں گرائونڈ میں پہنچتیں تو کیا دیکھتیں کہ پچ کھدی ہوئی ہے اور اُس پہ ’’گوڈے گوڈے‘‘ پانی کھڑا ہے۔ ایسے میں ٹیسٹ میچ ڈرا قرار دے دیا جاتا اور ’’نامعلوم افراد‘‘ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جاتا، اللہ اللہ خیر صلا۔ بھارتی ہوم سیریز کا نتیجہ پہلے ہی سب کو معلوم ہوتا تھا، اسی لئے یہ دُنیائے کرکٹ کی سب سے بورنگ سیریز سمجھی جاتی تھی۔ کل شام دوستوں کی ایک مجلس میں جب ملکی سیاست کے ہر گوشے پہ تفصیلی بات ہو چکی تو ایک صاحب نے سوال اٹھایا کہ پچیس جولائی کے انتخابات میں کون سی جماعت کتنی نشستیں جیتے گی۔ سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر اصحاب محفل نے انہیں یوں دیکھا جیسے وہ پوچھ رہے ہوں کہ اگلا فٹ بال ورلڈ کپ کس ملک میں ہو گا۔ ایک ہفتہ بعد ملکی انتخابات ہونے جا رہے ہیں لیکن سیاسی بحث کے موضوعات کچھ اور ہیں، انتخابات کے بعد کیا ہو گا، نواز شریف اور مریم نواز کا سیاسی مستقبل کیا ہے، کیا ادارے اپنے آئینی کردارکی پابندی کریں گے، کیا میڈیا کبھی وینٹی لیٹر سے اترے گا یا اگلے ستر برس بھی ’’حرکت تیز تر‘‘ رہے گی اور ’’سفر آہستہ آہستہ‘‘۔
ایک پریس کانفرنس میں ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ’’ہر انتخاب سے قبل دھاندلی کا الزام لگتا ہے، لوگ پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘‘ اس دعویٰ کا انتہائی مہذب جواب یہ ہے کہ ’’میرے بھائی، ایسا نہیں ہے۔‘‘ ہم نے اس ملک میں کم از کم دس انتخابات دیکھے ہیں، ایسے انتخابات نہ دیکھے نہ سنے۔ مُڑ کہ دیکھا جائے تو 1977 کے متنازع انتخابات مقابلتاً آج آپ کو کوثر و تسنیم میں دُھلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی ناقابلِ فخر انتخابی تاریخ میں بھی ایسا کوئی انتخاب نہیں ہوا جو انعقاد سے پہلے ہی کلی طور پہ اپنا اعتبار کھو بیٹھے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس نقطۂ نظر کی حمایت میں کوئی دلیل دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ کھیل اصولوں سے ہٹ کر کھیلا جا رہا ہے۔ کیا کیا گنوایا جائے، کیا کیا یاد دلایا جائے۔
ایک دو ہوں تو سحرِ چشم کہوں
کارخانہ ہے واں تو جادو کا
چلئے صرف ایک منظر دیکھ لیجئے۔ پچھلے ہفتے لاہور میں مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں، پھر اس ’’دانشمندی‘‘ کا دائرہ پورے پنجاب میں پھیلا دیا گیا، پنجاب پولیس کے مطابق مسلم لیگ نون کے سولہ ہزار آٹھ سو کارکن گرفتار کئے گئے۔ پنجاب بھر سے لاہور کے لئے روانہ سب قافلے راہ میں روک لئے گئے، لاہور میں کنٹینرز لگا کر ایئرپورٹ کے تمام راستے بند کر دیئے گئے، کئی مقامات پہ رینجرز تعینات کر دیئے گئے، اور شہر کی فضائی نگرانی شروع کر دی گئی، پھر خبر آئی کہ راجہ ظفر الحق سے شاہد خاقان عباسی تک مسلم لیگ نون کے درجنوں رہنمائوں پہ دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دیئے گئے ہیں۔ ان سب کا گردن زدنی جرم یہ تھا کہ وہ اپنے قائدین نواز شریف اور مریم نواز کا وطن واپسی پر استقبال کرنا چاہتے تھے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر کئی جیّد مبصرین فرما رہے تھے کہ نواز شریف اور مریم نواز تو مجرم ہیں، ان کے استقبال کو آہنی ہاتھ سے ہی روکا جانا چاہیے۔ یہ نادر دلیل سن کے خیال آیا کہ سقراط سے ذوالفقار علی بھٹو تک سب مجرم ہی تو تھے، اور میاں صاحب کے برعکس ایسے مجرم تھے جنہیں آخری عدالت نے مجرم قرار دیا تھا۔ ایک سینئر اینکر اسے مکافاتِ عمل قرار دے رہے تھے کہ 2014میں دھرنے والوں کے ساتھ نواز حکومت بھی تواسی درشتی سے پیش آئی تھی۔ واقعی؟ کیا اسلام آباد ریڈ زون میں 126 دن دھرنا دینے والوں کے ساتھ اسی آہنی ہاتھ سے نپٹا گیا تھا؟ اور پھر نواز شریف کیا کسی آئینی وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگنے آ رہے تھے یا پارلیمنٹ پر قبضہ کی نیت رکھتے تھے؟ کیا نواز شریف کے کارکن ایئر پورٹ کا محاصرہ کرنا چاہتے تھے کہ وہاں سے کوئی فلائٹ نہ اڑ سکے؟ ایسی کوئی بات نہیں تھی، نواز شریف تو گرفتاری دینے آ رہے تھے، اس میں لاہور کو سری نگر بنانے والی کون سی بات تھی۔
ہم جیسے کوتاہ نظر اس چنگیزی رویہ پہ بے دست و پا نگرانوں پر تنقید کر رہے ہیں لیکن سیانوں کی رائے مختلف ہے۔ ’’کیا نواز شریف کو یہ اجازت دے دی جاتی کہ اتنی محنت سے سجائی گئی بساط وہ ایک دن میں الٹ دیتا‘‘۔ واقفانِ حال کو قریباً اڑھائی لاکھ جوشیلے کارکنوں کے لاہور میں اکٹھا ہونے کا اندیشہ تھا، جس سے اچھے بھلے بنے بنائے الیکشن خراب ہو جاتے۔ اس کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی تھی، بدنامی کی خیر ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ کل مسلم لیگ نون کے ایک یو سی چیئرمین کو فون کیا کہ شام میں اس کے حلقہ کا چکر لگے گا تو اس سے بھی ملاقات ہو گی۔ موصوف نے مطلع کیا کہ ان کے خلاف دہشت گردی کا پرچہ ہو گیا ہے اور وہ زیرِ زمین ہیں۔ شہباز شریف نیب کے پچیس سوالات کا جواب دیں یا پچیس جولائی کی تیاری کریں، درجنوں مرکزی لیگی رہنما دہشت گردی کے مقدمات میں ضمانتوں کی فکر کریں یا انتخابات کی؟ بلوچ اور پختون اپنے پیاروں کے لاشے اٹھائیں یا انتخاب کی تیاری کریں؟ غلام احمد بلور کہہ رہے ہیں کہ یہ جو دہشت گردی ہے یہ کسی باہر والے کا کام نہیں ہے۔ پاکستان کی چھ بڑی سیاسی جماعتوں میں سے پانچ کے سربراہ آنے والے انتخاب کو پہلے ہی متنازع قرار دے چکے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا یک زبان ہو کر ہمارے’’غیر جانب دارانہ‘‘ انتخابات کی کھلی اُڑا رہا ہے۔ یہ ہیں ہمارے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات؟
ہم جیسے رجائیت پسند بھی سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابات پاکستان کو عدم استحکام کی سمت دھکیل دیں گے بلکہ دھکیل چکے ہیں۔ جن دانائوں کو اتنی موٹی بات سمجھ نہیں آ رہی وہ چھبیس جولائی کا انتظار کریں۔ بلا شبہ، متنازع انتخابات کے دونوں فریق ہار جاتے ہیں، دُشمن جیت جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.