نالے بلبل کے

ریاست بیچ منجدھار میں، ’’ہمنوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں‘‘۔ عمران خان، شیخ رشید وغیرہ یا اس طرح کے باقی کون ہوتے ہیں جو عدالتی فیصلے، عوامی فیصلے افشا کرتے پھریں۔ رازدان درون خانہ جان لیں، حکومت بنانا، ہٹانا آئینی، قانونی، حقی سچی منصب، رائے دہندگان کا‘‘۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘، نعرہ سوہان روح بن چکا۔ ’’ووٹ‘‘ کا جوش و خروش بڑھ رہا ہے۔ عمران خان کے جلسوں کی رونق ماند پڑنے کی وجہ، نواز شریف کی مقبول سیاست، دو دن پہلے سیالکوٹ، جھنگ، فیصل آباد میں جلسے تکلیف دہ حد تک ناکام کہ مہرہ ناچیز کی حیثیت ثانوی۔ مستزاد KP، میں پورا دفتر اعمال سے خالی۔ تقریر اور انتخابی اشتہارات کے مندرجات میں بدزبانی، جھوٹ، شیخی، ڈینگیں اور کچھ نہیں۔ ووٹ کو بذریعہ ریاستی جبر، طاقت، پیسہ سمیت لالچ، خوف متاثر کرنا، اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا قبیح جرم ہے۔ بدقسمتی، فراوانی سے رواں ہے۔ اس سے پہلے کہ ووٹر کا غیظ و غضب ریاست کو منتشر کرے، ایسے ہتھکنڈے فی الفور روکنے ہوں گے۔ نواز شریف اپنی بیٹی اور داماد کیپٹن صفدر سمیت اڈیالہ جیل میں براجمان۔ اعصاب کی جنگ، نواز شریف جیت چکے۔ تاریخ کو راہ راست پر رکھنے کی جنگ، نواز شریف جیت چکے۔ سیاست کی جنگ، نواز شریف جیت چکے۔ نواز شریف کا دلجمعی سے جیل جانا یہ سب کچھ اگر نواز شریف
کی سیاست کا کیک تو مریم کی سی کلاس کیک کی آئسنگ۔ قومی سیاست کا مستقبل نواز شریف، اکلوتا محور، نواز شریف کی غیر موجودگی میں گیارہ سال قید بامشقت سزا سنانا، والیانِ ریاست کا خیال، ’’نواز شریف جلا وطنی کو جیل پر ترجیح دے گا‘‘۔ 2014 جب سے نواز شریف کو تہ تیغ کرنے کے پروگرام منظر عام پر آئے۔ پانامہ، اقامہ، جو کچھ میسر، بروئے کار لائے۔ حتمی رائے، اگر نواز شریف سینہ سپر نہ بپھرتے، تن من سے مقابلہ نہ کرتے، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا اچھوتا بیانیہ نہ دیتے، تاریخ ایک طرف، میرے ذاتی مجرم ٹھہرتے۔ میاں صاحب70 سال کے لگ بھگ، دل کے گھمبیر آپریشن، تین بار وزارت عظمیٰ دیکھ لی، یقیناً جینے سے زیادہ قوم کے لئے مرنے کی حسرت حاوی، کیا تاریخی بیانیہ پایا ہے۔ حاضر جان ہتھیلی پر، لخت جگر کی تکلیف کیا پسیجتی، قومی سلامتی پہلی اور آخری ترجیح بن چکی ہے۔ نواز شریف کی جیل، ووٹ کی عزت ساتویں آسمان پر، ارباب اختیار کا نظام سے کھلواڑ، انصاف کا کشت و خون کرنے والوں کے چھکے چھڑانے کے لئے موثر پیغام بن کر سامنے آیا۔ جمہور یا عوام الناس کو ان کی طاقت کا ادراک شعور، تعین، یقین سب کچھ ووٹ کی عزت سے منسلک ہو چکا۔ لاہور نواز شریف کی وطن آمد سے چند روز پہلے مسلم لیگ ن کے ہزاروں ’’شر پسند‘‘ مؤثر کارکنان سے جیلیں بھر دی گئیں۔ موٹر وے، فون سروس، سڑکیں، راستے سب کچھ بند کرنے پڑے۔ جہاں نواز شریف کے اعصاب لوہے کے ثابت ہوئے، وہاں ارباب اختیار کے اوسان خطا، رعشہ طاری رہا۔ رینجرز طلب۔ بڑا لطیفہ کہ جہاز سے نہتے نواز شریف اور اکلوتی بیٹی کی گرفتاری میں بھی رینجرز مددگار رہی۔ بظاہر آئین کی حکمرانی، الیکشن کی فراوانی، گہما گہمی بلکہ جلسے، ریلیاں، کارنر میٹنگز جاری، مسلم لیگ ن پر پابندیاں حاوی۔ سینکڑوں کنٹینرز لاہور آنیوالے، ایئر پورٹ جانے والے، سارے راستے مسدود، پھر بھی کیسے، کہاں سے ہزاروں لیگی کارکنان رکاوٹیں عبور کرتے ریلی تک پہنچ گئے؟ حتیٰ کہ مخدوم جاوید ہاشمی، جسمانی مشکلات کے باوجود وہاں موجود۔ لگتا ہے جمہور نے جمہوریت کے ساتھ ہاتھا پائی کو خوشگوار عمل نہیں سمجھا۔ غصہ اور ردعمل ریلی کے شرکاء میں بدرجہ اتم موجود، لاہور بھنا چکا ہے۔ آزاد میڈیا کا ریلی کی لائیو کوریج کا بائیکاٹ اور عوامی مظاہروں سے برتاؤ، مزاحیہ پروگرام بن کر آیا۔ سن2018ء، سوشل میڈیا منٹوں، سیکنڈوں میں پول کھولتا، بھرکس نکالتا رہا۔ سوشل میڈیا نے وہ سب کچھ دکھا کر میڈیا کی بندش پرسیاسی انجینئروں کا خوب تماشا بنایا۔
منطقی انجام کے قریب، ہر فریق اپنے کیے کی اصل سزا و جزا پانے کوہے۔ چند فقرے چُست کرنے کو دل مچل رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے نواز شریف خاندان، جمہوریت اور نظام کے خلاف ٹویٹر، فیس بک، وٹس ایپ پر جاری جنگ، مختلف پوسٹس، فوٹو شاپ کلپس، شریف خاندان کی کردار کشی، مودی کا یار، غداری کے الزامات، نواز شریف کا کیا بگاڑ پائے؟ کھڑکی توڑ مقبولیت نفی کرتی ہے۔ شریف فیملی کا سوشل میڈیا، قومی میڈیا ٹرائل دن رات جاری۔ سینکڑوں ہزاروں حربے استعمال میں رہے۔ شروع میں مقابلے میں شریف خاندان بے بس، لاچار ضرور نظر آیا۔ نواز شریف پر لوگوں کا اعتماد وگرنہ ایسی بااختیار مؤثر مہم کسی کو بھی مثال بنادیتی۔ پچھلے چند مہینوں سے،ن لیگی سپورٹرز سوشل میڈیا کو انجینئرز کے اوپر اُلٹا چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ایسا بھرپور استعمال کر رہے ہیں کہ ووٹ کی عزت چھیننے والوں کے چھکے چھوٹ چکے ہیں۔ چند ہفتوں سے تقدس، تکریم، رعب، قانونی چارہ جوئی، دباؤ پر مبنی پوسٹس، ٹویٹس دیکھ کر ترس آتا ہے۔ افسوس بلکہ سانحہ، آج قوم اداروں پربری طرح منقسم ہے۔ خدشہ زمانہ قدیم سے تھا۔ نقار خانے میں گلا بھی پھاڑا، خدا کے واسطے سیاسی انجینئرنگ ختم کرو کہ ریاست اس دفعہ متحمل نہ ہو پائے گی۔ بھلا طوطی کی کون سنتا؟ جب مطمح نظر، ریاست کو مافیا سے نجات دلانا، تبدیلی کی نویدیں باآواز بلند قومی کان پھاڑ چکی ہیں۔
شریف خاندان کی ناکہ بندی کی منصوبہ بندی کا انتظام ہر طرح ضرور۔ بھٹو صاحب سمیت درجنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والوں کے لئے، نواز شریف لوہے کا چنا ثابت ہوئے۔ نواز شریف اڈیالہ جیل میں مقیم پھر بھی، ’’سانوں اک پل چین نہ آئے سجنا تیرے بنا‘‘، ریاستی چین غائب۔ بیانیہ تھا کیا؟ گلی کوچوں بازاروں میں دستیاب، شریف خاندان قصہ پارینہ، آنے والے دنوں پاکستانی سیاست میں کوئی رول نہ مقام۔ اس کے برعکس شریف خاندان کیخلاف منصوبہ سازی مملکت کو سیاسی عدم استحکام میں دھکیل چکی، دل دہلا رہی ہے۔ یا اللہ! اب ریاست کبھی استحکام کی طرف لوٹ پائے گی؟ مہینوں پہلے لکھا کہ نواز شریف کی جیل کی دیوار پر کندہ ہے۔ اقامہ پر فیصلہ غیر معمولی عدالتی کارروائی، آرٹیکل 10-A سے ماورا ناقابل فہم ٹرائل، آئینی قانونی عدالتی روایات سے تجاوز، انہونا طریقہ تفتیش،JITمیں سیکورٹی ادارے کے متعلقین کی موجودگی، JITکو غیر ملکی ایجنسی کی مدد کے شواہد، واٹس ایپ کالز، نیب عدالت کے قرب و جوار میں کئی نشیب و فراز، کیا کیا اصول ضابطہ پامال نہ ہوئے۔ سزا ملی تو بقول چیف جسٹس افتخار چوہدری، ’’جس بات کا افسانہ میں ذکرتک نہ تھا، ناگوار گزری‘‘، افتخار چوہدری صاحب اس حد تک گئے کہ ’’عدالتیں ذاتی دشمن بن کر فیصلہ نہیں کرتیں‘‘۔ خاطر جمع رکھیں یہی انجینئرز چند سال بعد باجماعت باادب باملاحظہ نواز شریف کو جیل سے بنفس نفیس نکالیں گے۔ تب تک ریاست کس شکل میں ہوگی، سوچ کر رونگٹے کھڑے، دل بیٹھتا جا رہا ہے۔ نواز شریف مقدمے سے غیر معمولی، اداراتی دلچسپی شروع دن سے عروج پر، چیں بہ جبیں ہر کان تک۔ سپریم کورٹ کی محنت شاقہ ہی، 10جولائی سے پہلے فیصلہ ممکن ہوا۔ وگرنہ نواز شریف کے وکیل 25جولائی کے بعد فیصلہ لینے پر مصر تھے۔ بعض لوگ25جولائی کی وجہ سے جلدی میں تھے۔ چنانچہ الیکشن سے پہلے 7جولائی کو فیصلہ آگیا۔ 13جولائی کو مجرم اپنے ٹھکانے، اڈیالہ جیل میں، نظام عدل متاثر ہونے سے بال بال بچ گیا۔ الیکشن، ارتعاش، ہلچل، ردعمل تو آنی جانی چیزیں، انصاف کا غیر معمولی بول بالا، قائم کرنا، بہت ضروری تھا۔ انصاف قائم ضرور ہوا، چین چھن گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے آج اپیل سنی تو مزہ آگیا۔ چیف جسٹس چھٹی پر، سینئر جج نے عدالتی معاملات چلانے تھے، چیف جسٹس نے اپیل لگانے، بنچ بنانے کی سہولت، چھٹی کی پروا نہ کرتے اپنے پاس رکھی، اپنی مرضی کا بنچ بنایا۔ حسن اتفاق ایک عرصے سے سپریم کورٹ، لاہور ہائیکورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں حساس، متنازع مقدمات سننے کا بوجھ چند موثر ججوں پر آن پڑا ہے۔ یہ طریقہ مناسب بھی کہ معمول کے لاکھوں غیر ضروری مقدمات سننے کے لئے باقی معزز جج صاحبان کام پر توجہ دے سکیں۔ جسٹس افتخار چوہدری صاحب جج کو آڑے ہاتھوں لے چکے، ’’کرپشن نہیں تو کیسی سزا ‘‘۔ بہرحال اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت پر الیکشن بعد 30جولائی کو نوٹس دے ڈالے، واہ رے انصاف تیرا بول بالا۔ باوجود یہ کہ 300ارب کی کرپشن کا الزام لگانے والوں کاایک نگ فواد چوہدری، شاہ زیب خانزادہ کے روبرو شکنجے میں تھا، آبرو بچانے میں ناکام رہا۔ گو جھوٹ کے پاؤں نہیں پھر بھی دُم دبا کر بھاگنے میں کامیاب رہا۔ پچھلے چند مہینوں سے الیکشن میں موافق نتائج برآمد کرنے کے لئے جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں، مارشل لائی دور سے نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے،’’نہ تم بدلے،نہ دل بدلا، نہ دل کی آرزو بدلی‘‘۔ پارٹیاں توڑنا، ’’پارٹی‘‘ جوڑنا، کنونشن لیگ، ق لیگ سے سبق نہیں سیکھا۔ کروفر سے کنگز پارٹی سنواری جا رہی ہے۔
آج ساری سیاسی جماعتیں ایک زبان، پری پول رگنگ اور قومی میڈیا کی زبان بندی پر بھنا اُٹھی ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، ایم ایم اے کی باجماعت آہ بکا جاری ہے۔ ایک مؤدبانہ گزارش میری بھی،
بجائے رونے دھونے کے، ابھی بھی وقت ہے، سرجوڑ کر بیٹھ جائیں۔ زرداری، شہباز، فضل الرحمان، سراج الحق، اسفند یار، شیر پاؤ سب کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ وگرنہ قومی مجرم۔ اگرچہ قومی اتحاد10(PNA) مارچ1977ء کے عام انتخابات سے چند ہفتے پہلے بنا تھا، آپ لوگ یہ کام چند دن میں کر سکتے ہیں۔ اگر فوری طور پر 30سے40 قومی اسمبلی اور اسی ترتیب سے 60سے80 صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر پانچ بڑی جماعتوں نے معاملہ فہمی (SEAT ADJUSTMENT) کر لی تو کاریگر فارغ، بے روزگار نظر آئیں گے۔ بصورت دیگر جمہوریت کی داستان تک نہ ہو گی، داستانوں میں۔ ریاست سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کی نذر ہو جائے گی۔ ناچیز مہروں، پُتلوں کو متعدی مریض کی طرح ایسے الگ تھلگ، نہتا کر دو جس طرح 2014ء کے دھرنے پرکیا تھا، سب جماعتیں اسمبلی میں جبکہ متعدی مریض کنٹینر پر اکیلے۔ مسلم لیگ کو زیادہ قربانی دینا ہوگی۔ پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کوپنجاب میں فراخدلی سے نوازنا ہوگا۔ خصوصاً جناب لیاقت بلوچ، ایک بڑا قومی سرمایہ، آنے والے دنوں کی جنگ میں لیاقت بلوچ جیسوں کا کردار، مؤثر رہنا ہے، خدارا اِن کو لاہور میں بسا لیں۔ ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی کو پنجاب کی درجنوں سیٹوں پر مسلم لیگ کے لئے تن من دھن لگانا ہوگا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کو کراچی، حیدرآباد میں ایم کیو ایم کو جگہ دینا ہوگی جبکہ ایم کیوایم کو اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کو۔ ANP، ایم ایم اے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، شیر پاؤ کو KP میں ایک دوسرے کے لئے فراخدلی دکھانی ہو گی۔ گلے لگانا پڑے گا۔ دیکھا نہیں، کنگز پارٹیوں نے ایک دوسرے سے کیسے معاملات طے کر لئے۔ تحریک انصاف، جی ڈی اے،PSP،وحدت مسلمین طول و عرض میں گٹھ جوڑ کر چکے۔ ان قوتوں کے خلاف، قومی اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ وقت کم، مقابلہ سخت، اٹھ باندھ کمر۔ الیکشن میں زور زبردستی پر چیک بھی اور بعد الیکشن14مارچ 1977ء کی طرز ایکشن پلان کی پیش بندی بھی۔ اس دفعہ لوگوں نے ٹوٹ کر گھروں سے نکلنا ہے، ووٹ دینا ہے۔ گارنٹی دیتا ہوں، چھ کروڑ سے زائد ووٹ پڑنے ہیں۔ سیاسی جماعتیں نہتی ضرور، دماغ اور حوصلہ موجود تو ہر چیز پہ بھاری۔ جیل میں موجود نواز شریف چھ کروڑ ووٹروں کا رخ جمہوری قوتوں کی طرف موڑنے کی صلاحیت سے مالا مال۔ اگر سیاسی جماعتوں نے اگلے 2دنوں میں بجلی کی کوند مانند لائحہ عمل ترتیب دے ڈالا، یقین جانیں، ملک بچ جائے گا۔ وگرنہ انتشار، افراتفری، عدم استحکام مقدر، جان لیوا بھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.