مستونگ کا لہو پکار رہا ہے

سارے ادارے دعوے کررہے تھے کہ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔
اشتہاروں میں بار بار دکھایا جارہا تھا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہم نے کیا۔
ہمیں تو خواب غفلت میں جانے کی جلدی ہوتی ہے۔ یہ خواب آور دعوے سن کر ہم سب یعنی انٹیلی جنس ادارے، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے، نیشنل ایکشن پلان، سب ہی آرام سے اپنے معمولات میں مشغول ہوکر ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہوگئے۔ بھول گئے کہ دہشت گردوں کے ارادے اب بھی وہی ہیں۔ انتہاپسندی ذہنوں میں اب بھی راسخ ہے۔ امریکہ سے اتحاد اب بھی بہت سی تنظیموں کے نزدیک گردن زدنی ہے۔
پہلے پشاور، پھر بنوں، اب مستونگ۔ اللہ رحم کرے۔ اب نہ جانے اور کہاں کہاں۔
یہ جو بھی ہیں۔ ان کے ماسٹر مائنڈ کہیں نہ کہیں بیٹھے ہوں گے۔ امریکی ڈرون کی آنکھوں سے چھپ کر۔ انہوں نے کئی منصوبے سوچے ہوں گے۔ کچھ فدائین کو یہ ذمہ داری سونپی ہوگی۔ اس مرکز سے یہ لوگ چلے ہوں گے۔ پشاور تک پہنچے ہوں گے۔ بنوں آئے ہوں گے۔ مستونگ کو نشانہ بنایا ہوگا۔ ہماری انٹیلی جنس بے خبر رہی۔ ہمارا ڈیجیٹل جاسوسی کا نظام ان کی نقل و حرکت نہ دیکھ سکا۔
150 سے زیادہ پاکستانی خاندانوں نے اپنے پیارے کھو دیئے۔ زیادہ تر جوان۔ ہمارا مستقبل۔ ہماری امنگیں ہماری آرزوئیں۔ ہماری تمنائیں خون میں نہلادی گئیں۔ ہماری امیدیں ریزہ
ریزہ کردی گئیں۔ یہ تو شہیدوں کے گھرانے ہیں۔ مستونگ میں 128 ، پشاور میں 20، بنوں میں 4۔ زخم زخم پاکستانیوں کے خاندان مستونگ 122، پشاور 45 سے زیادہ بنوں 20 سے زیادہ۔ ان کی سانسیں اٹکی ہوئی ہیں۔ ان کے جسم کٹے ہوئے ہیں۔ یہ ساڑھے 3سو سے زیادہ پاکستانی خاندان غم و اندوہ کی کیفیت میں ہیں۔ ان کے لئے الیکشن بے معنی ہوچکے ہیں۔ نعرے، الزامات، وعدے اور دعوے سب ان کے لئے بے روح ہوگئے ہیں۔ میں ایک کالم لکھ کر سمجھ لوں گا کہ میرا فرض ادا ہوگیا۔ ٹاک شوز والے بھی ایک دو بار بات کرکے دوسرے موضوعات میں الجھ جائیں گے۔ نگران حکومت بیانات، معاوضے کے اعلانات کرکے اپنی میٹنگوں میں مصروف ہوجائے گی سیاسی جماعتیں پرجوش بیانات دیں گی۔ جمہوریت کا عمل نہیں رکے گا۔ الیکشن سبوتاژ کرنے کی سازشیں ناکام بنادی جائیں گی۔ حالانکہ الیکشن تو کب کے سبوتاژ ہوچکے۔
مگر یہ تین ساڑھے تین سو خاندان تو ان دھماکوں سے برسوں متاثر رہیں گے۔ پیاروں کی تصویریں، ان کے لباس، ان کی باتیں، مسکراہٹیں، آنکھیں، دمکتے ماتھے ان گھرانوں کو یاد آتے رہیں گے۔ کتنے خواب ہوں گے جن کی تعبیر نہیں ملی۔ کتنی کہانیاں ہوں گی جو ادھوری رہ گئیں۔ بیٹے بیٹیاں ہر روز چوکھٹ سے لگی ان کی راہ تکیں گی۔ اچانک بیوہ ہوجانے والی سہاگنیں چھتوں پر کھوئے دنوں کی تلاش کرتی رہیں گی۔
کیا ہوا نیشنل ایکشن پلان۔ اس کے باقاعدہ خاتمے کا اعلان تو نہیں ہوا ہے۔ اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس بھی نہیں ہوئے۔
ہم نے سمجھ لیا کہ انتہاپسندوں کے پاس گولہ بارود ختم ہوگیا۔ خودکش جیکٹوں کے ذخیرے باقی نہیں رہے۔ اس لئے دہشت گردی کے خاتمے پر مامور تنظیمیں دوسرے محاذوں پر سرگرم ہوگئیں۔ ملک میں اقتدار کی جنگ تیز ہوگئی۔ انسانی جانوں کی حفاظت کی فکر کم ہوگئی۔
میں تو برسوں سے لکھ رہا ہوں کہ یہ سیکورٹی اپنی جگہ، حفاظتی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ لیکن زیادہ ضروری ہے۔ جوانوں کی ذہن سازی، جہاں انتہاپسندی کاشت کی جارہی ہے۔ جہاں ذہنوں میں شدت پسندی داخل کی جاتی ہے۔ جہاں اسلام کا ایک الگ ہی فلسفہ غالب کیا جاتا ہے۔ جہاں ذہن بدلے جاتے ہیں۔ جہاں خودکش بمباروں کی فصلیں پکائی جاتی ہیں۔ وہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تفنگ و توپ سے نہیں۔ ہتھیاروں سے نہیں۔ دلیل سے۔ وہاں عالمان دین درکار ہیں۔ یہ جہادی تنظیمیں جن جوانوں کو انتہاپسندی کی طرف راغب کرتی ہیں۔ وہ بھی اپنی حکمت اور نظریات پر بھرپور اعتماد رکھتی ہیں۔ پورا یقین ہے۔ اس سوچ کو بارہویں تیرہویں صدی کے فکر کو جب اکیسویں صدی کے ہتھیار مل جاتے ہیں تو یہ بڑا خطرناک جوڑ ثابت ہوتا ہے۔ 100علماء کا فتویٰ اپنی جگہ اچھی کوشش۔ لیکن ان علماء کو ان مقامات پر جاکر بالمشافہ بات کرنی چاہئے۔ یہ نوجوان ہمارے اپنے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں جو نظریات عقائد بٹھائے جارہے ہیں۔ وہ بہت سنجیدہ ہیں۔ ہم انہیں جرائم پیشہ کہہ کر ٹھکرا نہیں سکتے۔ پاک فوج نے ایک پروگرام De Radiclization شروع کیا تھا۔ جو محدود پیمانے پر سوات، فاٹا اور بلوچستان میں جاری رہا ہے۔ اسے بڑے پیمانے پر لے جانا حکومت کا فرض تھا اور ہے۔ اپنے نوجوانوں میں ان رجحانات کو ایسے پروگراموں سے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مسلمان ملکوں بالخصوص مصر نے تو اس کے لئے جیلوں میں مباحثے اور مکالمے کیے۔ ترکی میں بھی ایسی کوششیں کی گئیں۔ افغانستان اور بھارت سے یہ سازشیں ضرور ہوتی ہیں لیکن یہ کامیاب تو ہمارے نوجوانوں کے ذریعے ہوتی ہیں۔ اصل درماں تو نوجوانوں میں محبت اور اخوت کے ذریعے سوچ کو بدلنا ہے۔
دھماکے کی ذمہ داری تو کوئی نہ کوئی تنظیم قبول کرلیتی ہے۔ لیکن حفاظتی اقدامات میں غفلت، خطرناک خودکش بمباروں کے شہر میں داخلے میں کوتاہی کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ کسی ایس ایچ او، کسی ڈی ایس پی، کسی ایس ایس پی نے آج تک غفلت کی ذمہ داری تسلیم کی۔ اپنا عہدہ چھوڑا، کسی وفاقی کسی صوبائی وزیر داخلہ وزیراعلیٰ وزیراعظم نے استعفیٰ دیا۔ اکیسویں صدی میں 128 انسانوں کا قتل کیا کوئی معمولی واردات ہے۔ ہر انسان کے ساتھ کتنے انسانوں کا رشتہ ہوتا ہے۔ صرف معاوضے کے چیک بانٹ دینا، مذمتی بیان دے دینا ہی کافی ہے۔
کتنے لیڈر مستونگ گئے، ان سوگوار خاندانوں کو گلے لگایا۔ کتنی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم روکی۔ ٹی وی چینلوں پر اشتہار بند کیے۔ کتنے میڈیا ہائوسوں نے موسیقی کی دھنیں روکیں۔
یہ صرف امن و امان کا اور داخلی انتظامات کا مسئلہ نہیں ہے۔ عقائد سے اس کا تعلق ہے۔ نظریات سے واسطہ ہے۔ فوج، رینجرز اور پولیس کے ذریعے اس کا خاتمہ صرف ایک پہلو ہے۔ پوری مجموعی صورت حال کا صرف کچھ فی صد۔ باقی معاملہ تبلیغ، ترغیب اور تہذیب کا ہے۔
ہمارے علماء اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کون سے عناصر ہیں۔ جو جنت کا راستہ خودکش بمبار کے ذریعے بتارہے ہیں۔ ان سے مکالمے کی ضرورت ہے۔ دھماکے کے بعد تو یہ فوج، رینجرز اور پولیس کی دست اندازی میں آجاتا ہے۔ لیکن ایسے خودکش ہی کیوں تیار ہوں۔ نوجوان اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگیاں لینے پر کیوں آمادہ ہوں وہ اس کو جہاد کیوں سمجھتے ہیں۔ یہ سیکورٹی اداروں کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ یہاں علمائے دین، اسکالرز پروفیسر اور صاحبان علم وفضل کو متحرک ہونا پڑے گا۔ تاریخ اسلام میں پہلے بھی ایسے ادوار آئے ہیں۔ حرف و معانی کے ذریعے ہی یہ خطرناک رجحانات روکے گئے۔ مسئلے کی نزاکت کو سمجھیں۔ یہ بہت گہرائی رکھتا ہے۔ اس کے تاریخ اور تہذیب کے تناظر میں جائزہ لیں، سیاست، سول ملٹری تعلقات کی عینک سے نہ دیکھیں۔
ہم نے بہت سے قیمتی اثاثے کھو دیئے۔ جنرل، بریگیڈیر، ڈاکٹر، اساتذہ، وکلاء۔ اس لئے معاشرے میں وحشت بڑھ رہی ہے۔ بے دماغ لیڈر بن رہے ہیں۔ ہارون بلور، سراج رئیسانی ہم سے چھینے جارہے ہیں دانیال بلور ہمارا مستقبل ہے۔ امید کی علامت۔ ہم اسے نہیں کھو سکتے۔ دانیال بلور ہر گھر میں موجود ہے اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.