پٹواری اور قوم یوتھ

ایک طرف محبت کے دریا کی طغیانی، ایک طرف نفرت کی آگ کا دہکتا ہوا الائو، یہ ہے بیگم کلثوم نواز کی شدید علالت کے دوران ہمارے اجتماعی ردعمل کی مختصر اور تاسف انگیز کہانی۔ سیاسی سوداگروں نے قوم کو کرودھ کی کلہاڑی سے اس طرح کاٹ بانٹ دیا ہے کہ آج ’آپ‘ کا غم ’میرے‘ لئے نوید مسرت ہے، آپ کی ماں مر جائے تو میں لڈو بانٹوں، میرا بیٹا مر جائے تو آپ جشن منائیں اور اس نفرت کے سفر کی اگلی منزل یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیں اور ہمسائے کی موت کی اطلاع ملنے پر انا للہ پڑھنے کے بجائے خس کم جہاں پاک کہا کریں کہ ’کمبخت پٹواری تھا‘ یا ’آنجہانی قومِ یوتھ سے تعلق رکھتے تھے‘۔ ہم نے دو قومی نظریئے کی کیا خوب تشریح کی ہے۔
سیاسی مخالف کا مطلب دشمن نہیں ہوتا، نقطۂ نظر کے اختلاف کا معنی یہ نہیں کہ ہم بددعائوں پہ اتر آئیں، ہم سب اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں، اپنے وطن کو سنوارنا چاہتے ہیں، زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات چاہتے ہیں، پاکستان کو اقوام عالم میں سربلند دیکھنا چاہتے ہیں، سب کی منزل ایک ہے، صرف راستے کے چنائو پر دو رائے ہیں اور یہ کوئی قابلِ گردن زدنی جرم تو نہیں ہے۔ اختلاف رائے تو نعمت ہوتا ہے کہ جن معاشروں میں بس ایک ہی رائے ہوتی ہے وہ جوہڑ بن جاتے ہیں، جن سے کچھ ہی دیر میں تعفن اٹھنے لگتا ہے۔
اختلافِ رائے کے بطن سے مکالمہ پھوٹتا ہے، یہ نفرت بیچ میں کہاں سے آ گئی، پہلے ہی کچھ دکان داروں نے فرقہ اور مسلک کے نام پر ایک خلیج کامیابی سے ہمارے درمیان کھینچ رکھی ہے ۔ اور اب یہی حرکت شد و مد سے ہمارے ہاں سیاست میں دہرائی جا رہی ہے، یعنی تقسیم در تقسیم، انتشار در انتشار۔
بیگم کلثوم نواز صاحبہ ایک غیر سیاسی خاتون ہیں، صرف مشرف آمریت کے آغاز میں انہوں نے ایک سیاسی کردار ادا کیا تھا جس کا اعتراف سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر پوری قوم نے کیا اور جیسے ہی ان کا وہ کردار ختم ہوا وہ اپنی گھریلو زندگی کی جانب لوٹ گئیں۔ ان کی زندگی کے پچھلے پینتیس سال عوام کی نظروں کے سامنے گزرے ہیں، یہ انکا اعزاز ہے کہ تین بار خاتونِ اول رہنے کے باوجود انکی ذات کے کسی گوشے پر انکے خاوند کا کوئی بدترین سیاسی مخالف بھی انگلی نہیں اٹھا سکا، نہ کوئی اسکینڈل، نہ ہی کوئی ایک غیرمحتاط جملہ ان سے منسوب کیا جا سکا۔ ملکی سیاست کے مسموم مزاج کو مدنظر رکھیں تو یہ ایک معجزہ سے کم نہیں کہ ہمارے ہاں تو اب یہ افسوسناک چلن ہے کہ ہر کسی کے سر میں دھول ڈال دی جائے، ہر چہرے پر کالک مل دی جائے تاکہ کوئی پہچانا نہ جا سکے۔ ان حالات میں ایسی بے داغ اور باوقار زندگی گزار کر بیگم کلثوم نواز وینٹی لیٹر تک جا پہنچیں۔
سوشل میڈیا پر مریم نواز نے اپنی والدہ کی صحت یابی کے لئے دعا کی اپیل کی یعنی ایک بیٹی نے اپنی کینسرزدہ ماں کے لئے ہر خاص و عام سے دعا کی درخواست کی، لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ ایک انتہائی تکلیف دہ کہانی ہے۔ دعائوں اور بددعائوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، گویا ووٹ ڈالے جا رہے تھے۔ ’بددعا گروپ‘ یہ سمجھ ہی نہیں سکا کہ یہ ایک صریحاً انسانی ہمدردی کا غیر سیاسی معاملہ ہے۔ اور پھر ایسا ایسا سنگدلانہ تبصرہ نظر سے گزرا کہ ایسے معاشرے کا حصہ ہونے پر آپ خود سے شرمندہ ہو جائیں۔ وہ سب یہاں دہرانے کا یارا تو نہیں بس مختصراً ان ٹویٹس کا مفہوم آپ تک پہنچا رہا ہوں۔
تبصروں کے مرکزی نکات کچھ یوں ہیں کہ کلثوم نواز کی بیماری فقط اداکاری ہے، اب وہ آسکر ایوارڈ لے کر ہی پاکستان واپس آئیں گی، اس بیماری کی اصل وجہ ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنا ہے، یہ ماڈل ٹائون کے شہداء کا بدلہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی شقی القلبی، اتنی نفرت اور وہ بھی ایک قطعاً غیر سیاسی خاتون سے، آخر کیوں؟ ہمارے نبی ؐ نے تو ہمیں کچھ اور سکھایا تھا، وہ تو اپنے بدترین دشمنوں کی عیادت بھی کرتے تھے اور تعزیت بھی۔
ترحم اور دلجوئی کے بنیادی انسانی جذبات کو معطل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ’دشمن‘ کو Dehumanizeکیا جائے، اسے ہر مثبت انسانی جذبے سے عاری ثابت کیا جائے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر اسے اشیاء کی سطح پر لے آیا جائے۔ اس طرح انسان اپنے غیر انسانی رویہ کی منطق ڈھونڈ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیتا ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے اٹی ہوئی ہے، جہاں پہلے کسی انسانی گروہ کو مذہبی، نسلی یا سیاسی بنیاد پر Dehumanizeکیا گیا اور پھر ان کے خلاف ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا کہ اس پر آج بھی انسانیت نوحہ کرتی ہے۔
اپنے اردگرد نظر ڈالئے، آپ کو واضح نظر آئے گا کہ کچھ شریر عناصر سیاست کی آڑ میں وہ ہی خطرناک کھیل اس ملک میں کھیلنے کی سازش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے کروڑوں ہم وطنوں کے حوالے سے آپ کو Desensitize کرنے کی مکروہ کوشش کر رہے ہیں، مثلاً ’اس جماعت کے سب حامی اور ووٹر اخلاق باختہ لوگوں کا ایک گروہ ہے جو آپ کی نفرت کا حقدار ہے‘ یا یہ کہ ’آپ کی مخالف سیاسی
جماعت پٹواریوں اور جاہلوں کا ٹولہ ہے جس کا ہر حامی لفافہ پکڑ چکا ہے‘۔ یعنی یہ کہ آپ کا واسطہ اسفل السافلین سے ہے جو آپ کی کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہم اس طرح کے زہریلے خیالات کے فریب میں آگئے تو یہ معاشرہ نفرت کی آگ میں جھلس کر رہ جائے گا۔ یہ انتہائی خطرناک کھیل ہے، پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے، اس کار حماقت کو یہیں روک دیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.